Saturday, August 9, 2014
Afsanche Ka Mustaqbil; افسانچے کا مستقبل Urdu Article اردو مضمون
Labels:
adab,
Afsana;Deepak Budki,
afsancha,
Article,
fiction,
FlashFiction,
genetic; Urdu adab; shortshortstory,
literature,
Mazmoon,
Microfiction,
ministory,
Nanofiction,
shortstory,
Urdu,
urdukahani
Saturday, July 5, 2014
Daste Hinai:دست حنائی (Urdu/Afsana/اردو افسانہ ); Author: Manzoor Parwana; Reviewer: Deepak Budki
Labels:
adab,
Afsana,
Afsane,
Bookreview,
Criticism,
Deepak Budki,
fiction,
Kahani,
Katha,
literature,
shortstory,
Tabsere,
Tanqeed,
Urdu,
Urdu Adab,
urdukahani
Monday, May 19, 2014
Asri Taqaze(Tanqueedi Mazameen Wa Tabsere):عصری تقاضے (تنقیدی مضامین و تبصرے ) (Urdu/Tabsera); Author: Deepak Budki; Reviewer:Amin Banjara
Asri Taqaze(Tanqueedi Mazameen Wa Tabsere)
عصری تقاضے (تنقیدی مضامین و تبصرے )
Author: Deepak Budki:Reviewer:Amin Banjara
* BOOK: ASRI TAQAZE ; * AUTHOR: DEEPAK BUDKI; * EDITION: 2013
* GENRE: RESEARCH, CRITICISM & REVIEWS
* BINDING: PAPERBACK; * PAGES: 352 ;* PRICE: RS. 450/-
* ISBN NUMBER: ISBN-978-93-80691-53-4
* PUBLISHER: MEEZAN PUBLISHERS, SRINAGAR KASHMIR
عصری تقاضے : چند تاثرات
(میرے مضمون کی چند سطریں)
٭ دیپک بدکی صاحب اُردو دُنیا کا ایک مقبول و معروف نام ہے اور اپنے
افسانوی ادب کے طفیل اُنھوں نے کافی شہرت حاصل
کی ہے ۔۔ " ادھورے چہرے " ، "
چنار کے پنجے " ، " زیبرا کراسنگ پر کھڑا آدمی " اور " ریزہ ریزہ حیات "
اُن کے چار افسانوی مجموعے اُردو میں شائع ہو چکے ہیں۔ " ادھورے چہرے " اور
" چنار کے پنجے " دونوں مجموعے ہندی میں بھی چھپ چکے ہیں جن کی وجہ سے اُن
کے قاریئن کا حلقہ کافی وسیع ہوا ہے ۔۔ افسانہ نگار کے علاوہ اُن کو محقق ،
ناقد اور مبصر کے طور پر بھی جانا جاتا ہے ۔ اُن کے تنقیدی مضامین اور
تبصروں پر مشتمل اُن کی تین کتابیں " عصری تحریریں " ، " عصری شعور " اور "
عصری تقاضے " منظر عام پر آکر پذیرائی کا شرف حاصل کر چکی ہیں ۔۔ یہاں اُن
کی آخر الذ کر کتاب ہی میرے پیش نظر ہے لیکن اِس کتاب کے حوالے سے چند
جملے پیش کرنے سے قبل یہ بتانا لازم ہے کہ دیپک بدکی کی شخصیت اور اُن کے
فن پر ایک کتاب بعنوان " ورق ورق آیئنہ " شائع ہو چکی ہے جسے میرے عزیز
دوستوں پروفیسر شہاب عنایت ملک ، ڈاکٹر فرید پربتی (مرحوم) اور ڈاکٹر انور
ظہیر انصاری نے ترتیب دیا ہے ۔ اِس کے علاوہ جموں یونی ورسٹی جاوید اقبال
شاہ نامی ایک ریسرچ اسکالر کو دیپک بدکی کی افسانہ نگاری پر تحقیقی مقالہ
لکھنے کے لیے ایم- فل کی ڈگری بھی تفویض کر چکی ہے ۔۔۔
٭ دیپک بدکی کا تعلق ریاست جموں و کشمیر سے ہے لیکن ان دنوں وہ مستقل طور پر غازی آباد (یو پی) میں مقیم ہیں ۔۔ گزشتہ ماہ وہ جموں تشریف لائے تو اُنھوں نے مجھے فون کر کے اپنی آمد کے بارے میں بتایا ۔۔ میں اُن کا دیدار کرنے کے لئے جب اُن کی قیام گاہ پر پہنچا تو اُنھوں سب سے پہلے مجھے جن گراں مایہ تحائف سے نوازا ، وہ اُن کی تین تصانیف لطیف تھیں ، جن میں اُن کے دو افسانوی مجموعوں کے تازہ ایڈیشن تھے اور ایک تھی " عصری تقاضے " جس کا ذکر میں یہاں کر رہا ہوں ۔۔ اِس کتاب میں اُن کے ستر (70) تحقیقی و تنقیدی مضامین اور تبصرے شامل ہیں ۔۔ کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اُنھوں نے کم و بیش ہر ایک صنف سخن اور متفرق موضوعات پر لکھی ہوئی کتب کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے جن میں منٹویات ، شعر گوئی ، افسانہ نگاری ، افسانچہ نگاری ، ڈراما نگاری ، ناول نویسی ، طنز و مزاح ، انشائیہ نگاری ، خاکہ نگاری ، تحقیق و تنقید اور شکاریات شامل ہیں ۔۔ تبصرہ نگاری میں جہاں اُنھوں نے صاحبان کتب کی حوصلہ افزائی کے لیے تعریفی کلمات کا اظہار کیا ہے وہیں اشاروں اور کنایوں بلکہ کہیں کہیں واضح طور پر فنی اسقام کی نشان دہی کر کے اپنی بے باکی کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔۔۔ اُن کے تحقیقی و تنقیدی مضامین بڑے خاصے کی دستاویزات ہیں جن میں اُنھوں نے دانشورانہ اور مفکرانہ لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے بڑے ٹھوس دلائل کے ساتھ اپنے نظریات قاریئن کے سامنے پیش کئے ہیں ۔۔ اُنھیں اِس بات کا رنج ہے کہ تقسیم ملک کے بعد ہندوستان میں اُردو کے ساتھ بہت سی نا انصافیاں ہوئی ہیں اور گنگا جمنی تہذیب کے دھاروں کو کیسری اور ہرے رنگ میں رنگنے کی مذ موم کوششیں کی گئی ہیں ۔۔ وہ اِس بات پر ماتم کناں نظر آتے ہیں کہ اُردو کے تیئں بے جا غفلت اور نفرت کے دوران میں ہندوؤں کے اُن کارناموں کو بھی نظر انداز کر دیا گیا جو کار ہائے نمایاں اُنھوں نے اُردو زبان میں سر انجام دیئے تھے ۔۔۔ دیپک بدکی نے ایسی بہت سی تجاویز بھی پیش کی ہیں جن پر عمل کر کے اُردو کے لئے پھر سے ایک ساز گار ماحول تیار کیا جا سکتا ہے اور اِس زبان کو روزی روٹی کے ساتھ بھی جوڑا جا سکتا ہے ۔۔۔
٭ دیپک بدکی کی زبان اور طرز بیان کے اوصاف بھی قابل ذکر ہیں ۔ وہ سادہ ، شستہ اور رواں دواں زبان تصرف میں لاتے ہیں اور بڑے اہم اور پچیدہ معاملات اور نکات کو اپنے نکھرے ہوئے اسلوب میں بیان کر دیتے ہیں ۔ اُن کی تحریروں میں یہ محاسن اِس لئے نمایاں ہیں کہ وہ وسیع المطالعہ اور عمیق المشاہدہ ہونے کے ساتھ ساتھ فراخ دل بھی ہیں ۔۔ اُردو فکشن کے حوالے سے لکھے ہوئے اُن کے مضامین اور تبصرے بھی مطالعے سے تعلق رکھتے ہیں اور اِس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ فکشن کی سبھی اصناف پر اُن کی گرفت موجود ہے اور فکشن کے عالمی منظر نامے پر وہ گہری نگاہ رکھتے ہیں ۔ اِس کتاب کے "حرف آغاز" میں موجود اُن کے یہ جملے بہت متاثر کرتے ہیں کہ ۔۔۔ " اُردو میں نہ تو شاعروں کی کمی ہے اور نہ ہی نثر نگاروں کی ، نہ واعظوں کی کمی اور نہ منافقوں کی ۔۔ کمی اگر ہے تو سنجیدہ قاریئن کی اور غیر جانب دار نقادوں کی جو تنقید کو محض روزی روٹی کا وسیلہ یا گروہی نظریات کا اشتہار نہ سمجھ کر ادب کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔۔۔۔"
امین بنجارا
مکان نمبر 267
جوگی گیٹ ، جموں- پن کوڈ - 180001
٭ دیپک بدکی کا تعلق ریاست جموں و کشمیر سے ہے لیکن ان دنوں وہ مستقل طور پر غازی آباد (یو پی) میں مقیم ہیں ۔۔ گزشتہ ماہ وہ جموں تشریف لائے تو اُنھوں نے مجھے فون کر کے اپنی آمد کے بارے میں بتایا ۔۔ میں اُن کا دیدار کرنے کے لئے جب اُن کی قیام گاہ پر پہنچا تو اُنھوں سب سے پہلے مجھے جن گراں مایہ تحائف سے نوازا ، وہ اُن کی تین تصانیف لطیف تھیں ، جن میں اُن کے دو افسانوی مجموعوں کے تازہ ایڈیشن تھے اور ایک تھی " عصری تقاضے " جس کا ذکر میں یہاں کر رہا ہوں ۔۔ اِس کتاب میں اُن کے ستر (70) تحقیقی و تنقیدی مضامین اور تبصرے شامل ہیں ۔۔ کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اُنھوں نے کم و بیش ہر ایک صنف سخن اور متفرق موضوعات پر لکھی ہوئی کتب کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے جن میں منٹویات ، شعر گوئی ، افسانہ نگاری ، افسانچہ نگاری ، ڈراما نگاری ، ناول نویسی ، طنز و مزاح ، انشائیہ نگاری ، خاکہ نگاری ، تحقیق و تنقید اور شکاریات شامل ہیں ۔۔ تبصرہ نگاری میں جہاں اُنھوں نے صاحبان کتب کی حوصلہ افزائی کے لیے تعریفی کلمات کا اظہار کیا ہے وہیں اشاروں اور کنایوں بلکہ کہیں کہیں واضح طور پر فنی اسقام کی نشان دہی کر کے اپنی بے باکی کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔۔۔ اُن کے تحقیقی و تنقیدی مضامین بڑے خاصے کی دستاویزات ہیں جن میں اُنھوں نے دانشورانہ اور مفکرانہ لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے بڑے ٹھوس دلائل کے ساتھ اپنے نظریات قاریئن کے سامنے پیش کئے ہیں ۔۔ اُنھیں اِس بات کا رنج ہے کہ تقسیم ملک کے بعد ہندوستان میں اُردو کے ساتھ بہت سی نا انصافیاں ہوئی ہیں اور گنگا جمنی تہذیب کے دھاروں کو کیسری اور ہرے رنگ میں رنگنے کی مذ موم کوششیں کی گئی ہیں ۔۔ وہ اِس بات پر ماتم کناں نظر آتے ہیں کہ اُردو کے تیئں بے جا غفلت اور نفرت کے دوران میں ہندوؤں کے اُن کارناموں کو بھی نظر انداز کر دیا گیا جو کار ہائے نمایاں اُنھوں نے اُردو زبان میں سر انجام دیئے تھے ۔۔۔ دیپک بدکی نے ایسی بہت سی تجاویز بھی پیش کی ہیں جن پر عمل کر کے اُردو کے لئے پھر سے ایک ساز گار ماحول تیار کیا جا سکتا ہے اور اِس زبان کو روزی روٹی کے ساتھ بھی جوڑا جا سکتا ہے ۔۔۔
٭ دیپک بدکی کی زبان اور طرز بیان کے اوصاف بھی قابل ذکر ہیں ۔ وہ سادہ ، شستہ اور رواں دواں زبان تصرف میں لاتے ہیں اور بڑے اہم اور پچیدہ معاملات اور نکات کو اپنے نکھرے ہوئے اسلوب میں بیان کر دیتے ہیں ۔ اُن کی تحریروں میں یہ محاسن اِس لئے نمایاں ہیں کہ وہ وسیع المطالعہ اور عمیق المشاہدہ ہونے کے ساتھ ساتھ فراخ دل بھی ہیں ۔۔ اُردو فکشن کے حوالے سے لکھے ہوئے اُن کے مضامین اور تبصرے بھی مطالعے سے تعلق رکھتے ہیں اور اِس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ فکشن کی سبھی اصناف پر اُن کی گرفت موجود ہے اور فکشن کے عالمی منظر نامے پر وہ گہری نگاہ رکھتے ہیں ۔ اِس کتاب کے "حرف آغاز" میں موجود اُن کے یہ جملے بہت متاثر کرتے ہیں کہ ۔۔۔ " اُردو میں نہ تو شاعروں کی کمی ہے اور نہ ہی نثر نگاروں کی ، نہ واعظوں کی کمی اور نہ منافقوں کی ۔۔ کمی اگر ہے تو سنجیدہ قاریئن کی اور غیر جانب دار نقادوں کی جو تنقید کو محض روزی روٹی کا وسیلہ یا گروہی نظریات کا اشتہار نہ سمجھ کر ادب کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔۔۔۔"
امین بنجارا
مکان نمبر 267
جوگی گیٹ ، جموں- پن کوڈ - 180001
Wednesday, April 23, 2014
Monday, April 21, 2014
Interview of Deepak Budki:دیپک بدکی سے مکالمہ (UrduOnline/اردو آن لائن ); For 'Adbi Interview Forum'; By: Urdu Writers & Critics.
Interview of Deepak Budki:دیپک بدکی سے مکالمہ
(UrduOnline/اردو آن لائن )
ForAdbiInterviewForum'By:UrduWriters&Critics
- آداب بُدکی صاحب.....سوال یہ کہ کیا آپ کو لگتا ہے کہ افسانہ نگاری(کشمیری اور اردو) کا فن کشمیر میں دم توڑرہا ہے اگر ہاں،تو وجوہات کیا ہیں ،جواب نفی میں ہوا تو دلیل دیکر ممنون فرمائیںDeepak Budki Aisi koi baat nahi hai. Kashmir mein afsana nigar pehle bhi kum paida hue aur ab bhi. Darasal is ki wajah yeh hai ki Urdu mein shairi ki taraf qalmkaron ka zyada rujhan raha hai. Sirf taraqqi pasand tehreek ke dauran afsana nigari ki taraf adeebon ne dhyan diya magar jadeediyat ke aate aate woh bhi khatam ho gaya. Kashmir ke bare mein itna kehna zaroori hai ki overpoliticization ki wajah se qalmkar khul kar nahi likh pate hain. Main ne is bare mein apne mazmoon Dr Brij Premi ki Afsana Nigari mein likha tha. kashmir ke qalmkar zyada tar government naukriyan karte hain is liye anti-establishment likhne se gurez karte hain.
- ·
Hassan Azhar
تجریدی اور علامتی افسانہ کی وضاحت کیجیے اور مثال کے لیے چند ایک افسانوں کا نام بھی بتائیے....Deepak Budki Jadeed tehreek ne jis afsane ko janam diya us ko Mehmood Hashmi ne "zehni fiza ki aamad" qarar diya. Is mein Tajreedi imagery, Tlazama khayal aur ijtemayi lashaoor khas taur se qabile zikr hain. Krishan chander ki Do farlang lambi sarak, Manto ki kahani phundne is ki ibtedayi misalein hain. Aziz ahmed ki Madan Sena aur sadiyan, Quratulain haider ki seeta haran aur Mumtaz shireen ki Megh malhar aur Deepak Rag Ijtemayi lashaoor ki kahaniyon ki misalein hain. Is tehreek ke mashhoor naam yun hain ; Quratulain haider, Joginder Paul, Gayas ahmed gaddi, balraj mainra, anwar sajjad, rashid amjad, mohd mansha yaad , balraj komal, Khalida hasan, surrinder prakash, ahmed humesh, anwar qamar.Characeteristics: Khayal ki ikai ka phailaw; ainiyat pasandi ko khairbaad aur tajreedi (abstract) izhar ko apnana, bayania asloob tarak karna, Makalma andaze tehreer ka ghalba, Kharij se Dakhil ki tarf miraajiyat, dakhli karab ki akasi, Shayiri ke nazdeek lane ki koshish, illamaton (symbols) aur isteaaron(metaphor) ke zariye apne mafiuzzameer ko qari tak puhnchana, ibhaam se guzar kar tajreedi afsana aur Laainiyat ki janib jaana. chand mashhoor afsane; Balraj Menra ka Machas, woh, rape, composition Series, Khalida Hasan ka Sawari, Ahmed humesh ka Makhi, Drainage mein gira hua qalm, Anwar Qamar ka chaurahe par tanga hua aadmi,Gaddi ka parinde pakdne wali gadi. etc. main ne be chand illamati aur abstract kahaniyan likhi hain; Jago, Ghonsla, Zebra crossing par khada aadmi, Ehtejaaj etc. - Shahnaz Rasheed
دیپک بدکی صاحب تسلیم ۔۔۔ یہ ایک تلخ حقیقت یے کہ ہم نے زبانوں کو بھی مذہبوں اور عقیدوں کے خانوں میں تقسیم کیا ہے ۔ آپ میری بات ماشا اللہ خوب سمجھتے ہیں ۔ ایسے حالات میں آپ اردو زبان کی طرف کیوں اور کیسے آے ۔ نیز، کیا آپ مانتے ہیں کہ ہندی کی تسبت اردو زبان تخلیقی سطح پر، امکانات سے بہت زیادہ لبریز ہے ۔Deepak Budki Main ne ek film dekha tha jis mein heroine hero se ek sawal karti hai ki gulab acha hai ya chameli. Woh jawab deta hai ki bagh mein har kism ke phool hote hain , kisi mein mehak hoti hai aur kisi mein khoobsoorti, hum kisi ko doosre par tarjeeh nahi de sakte hain. yehi baat zabanon ki hai. Agar hum yeh kehte hain ki koi ek zaban ko fauqiyat hasil hai woh hum tabhi keh sakte hain agar hum ne doosri zabanein bhi usi inhemak se parhi hoon aur un ka literature bhi parha ho. Yehi baat mazahib ke sath bhi hai. Acharya J Krishnamurthy kehte hain ki biological inheritance ke sath hamein social inheritance bhi virasat mein mil jaati hai aur isi liye hamein apna mazhab, apni zuban, apna culture achcha lagta hai. Dekha jaye to literature mein Sanskrit aur Arabic ka kafi conribution raha hai. Modern zamane mein sab se zyada yogdaan French ka raha hai jo europe ki zabanon mein bahut hi meethi zaban mani jaati hai. Yeh sach hai ki Urdu ko hindustani zabanon mein khas muqam haasil hai magar hum doosri zabanon ko kum paya nahi keh sakte hain. Maslan drama sinf mein marathi aur bengali ka kafi contribution raha hai. jahan tak mera sawal hai main ek Science student tha aur ghar mein kisi ko adab ke sath door door ka wasta bhi nahi tha. BSC mein mujhe likhne ka shauq hua , so Oriental School(MP School) mein urdu seekh li aur phir is zaban ko apna audhna bichauna bana liya.Jahan tak Urdu aur Hindi ke mustaqbil ka sawal hai, har zaban ki nisho numa ke liye kay cheezon ki zaroorat hoti hai. Logon ka rujhan, employment ke imkanat, Govt ki sarparsti aur cultural base. Hidustan mein urdu politics ki nazar hogaya. Main ne is bare main badi tafseel se apne majmooae Chinar ke Panje ke Haraf Awwal mein likha hai. Yeh mere blog par aap ko mil sakta hai. deepakbudki.com Link hazir hai
http://deepakbudki.com/haraf-e-aghaz-preface-to-chinar.../
- Salim Salik
جناب بدکی صاحب ۔۔۔۔۔کیا وجوہات ہیں جب بھی کوئی نقاد اردو افساانوں کی بات کرتا ہے اور اس میں ایک طویل فہرست بھی ہوتی ہے لیکن ریاست کے افسانہ نگاروں کا کہیں ذکر نہیں ہوتا ۔۔۔۔Deepak Budki Bawajoodeki is waqt J&K hi ek aisi riyasat hai jis mein Urdu ko official zaban ka darja hasil hai magar yahan ke adeebon ko itni zyada ahmiyat nahi di jaati hai. Hamein UP aur Bihar ke adeeb IInd class adeeb mante hain. unhein kashmir tab hi yaad aata hai jab unhein kashmir ki sair karni hoti hai. Kashmir se ek hi naqad aise nikle jinhein international satah par recognition mila magar unhon ne bhi apni tehreeron mein kisi kashmiri writer to ahmiyat nahi di. Adab mein groupism kafi kaam karta hai jaise Narang ka group, Farooqui ka group, agar hamdi sahab ne bhi kashmiri qalmkaron ka ek group banaya hota to shayad achcha hota. Hamein apna ek group banana padega aur Kashmir University aur Iqbal institute mein Kashmiri Urdu Adeebon ko tarjeeh deni chahiye. Doosri baat yeh bhi hai ko hum mein se kayi adeeb pehle to urdu mein PG ya PHD karte hain aur phir Kashmiri language ki taraf rajooh karte hain jis se urdu ke resources kum ho jate hain. - Shahnaz Rasheed
میرا دوسرا سوال ۔۔۔۔ ریاست جموں و کشمیر کے حوالے سے ﴿ منٹو ، کرشن چندر اور ٹھاکر پونچھی جیسے کامیاب اور رجحان ساز افسانہ نگاراور ناول نگاروں کو ذہن میں رکھ کر﴾ ہمارے تازہ ترین افسانے کی صورت حال کیا ہے ۔ کیا آپ مانتے ہیں کہ ترقی پسند دور کا افسانہ نہ صرف انسانی سماج،جذ بات اور احساسات کی پر خلوص ترجمانی کرتا تھا، بلکہ فنی اور ہیتی اعتبار سے بھی چست تھا ۔۔ کیا ان تخلیقات کو محض نعرہ بازی اور ایک خاص سیاسی فکر کا لاوڈ سپیکر کہنا ادبی استحصال نہیں یے ۔۔ٔ؟؟؟Deepak Budki Manto aur Krishan Chander ko Kashmiri kehna utna hi galat hai jitna Hargobind Khurana ko Indian kehna. Manto Punjab mein pala barha aur Krishan chander bizateh Punjabi tha. Thakur Poonchi , Ramanand Sagar wagairah ki baat alag hai. Manto ne to Taraqqi pasandi se jaldi hi munh morha; us daur mein sirf Tamasha aur Naya Qanoon us ke qabil zikr afsane hain. Krishen Chander ne sharooat to romani taraqqi pasandi se ki thi jo us ki maqbooliyat ki wajah ban gayi magar phir us ne propaganda aur naara bazi se kaam liya aur Honolulu ka Raaj kumar jaisi kitabein likhein. Tarraqi pasand daur hamare adab ka sunhari daur hai. choonki hamare muashre mein woh sab tabdeeliyan aur zehni irteqa dekhne ko nahi mila jo maghrib mein 2 aalmi jangon ke sabab waqooh pazeer hua is liye aaj bhi jab hum Prem Chand, krishan Chander, Qasmi, ahmed abbas, ismat chugtai,wagairah ko parhte hain to un ki manwiyat zahir hoti hai. - Farooq Rafiabadi
آراب برکی صاحب .آج کشمر مى اررو افسانه کهنه پر هى تپ کى کىا راى هىWhere is urdu Afsana in kashmir and what do u think about the feature of urdu Afsana in kashmir?Your massage for young urdu writers regarding urdu Afsana and short stories.Deepak Budki Chinachi urdu kashmir ki official zaban hai is liye is zaban mein kaafi kaam ho sakta hai agar aadmi himmat na hare. Hum chahte hain ki do char din mein hi hamein shuhrat mile aur sahitya academy award se nawaze. yeh mumkin nahi. hamein khaloos ke sath mehnat karke kaam karna parhe ga. Afsane ki taraf woh jaye jis ko andar ki urge ho na ki jo shayri nahi karsake. Afsane likhna ek paicheeda fun hai jis mein maharat haasil karna kafi lagan aur mehnat chahta hai. Sab se bari baat yeh ki jo afsana nigari karna chahta ho woh BOLD hona chahiye. To call a spade a Spade; phir chahe naukri jaye ya jaan; nahi to better hai koi aur pesha ikhteyar karna.Marquis de Sade (jin ke naam par Sadiyat ya Azyat koshi dictionary mein aya hai) likhte hain;" If like R....you only write what everybody knows and should you, like him, give us four volumes per month, it is not worth the trouble of taking up your pen. Nobody is forcing you to accept the craft; but if you do undertake it, do it well. Above all do not adopt it as an aid to your existence. Your work will be the worse for your needs, to it you will transmit your weakness, it will have the pallor of hunger. Other occupations present themselves to you ; make shoes and do not write books."(Ides Sur les Romans ; Marquis de Sade) - Shahnaz Rasheed
بہت خوب دیپک بدکی صاحب ۔۔۔ آپ کے مطالعہ اور آپ کی نظر کو سلام ۔۔۔ سلامت رہیں - Muzaffar Aazim
بدکی صاحب، میں مدت سے کشمیر سے باہر ہوں، آپ کی تصانیف مجھے یہاں میسر نہیں ہیںَ۔ معلوم ہو ہے کہ آپ پنجابی ہیں۔ پنجابی زبان و ادب کے ساتھ اپنی دلچسپی اور تصانیف کے بارے میں کچھ بتانا چاہیں گے؟Deepak Budki Main Kashmiri Pandit hoon, Kashmir main paida hua, taleem MSc BEd tak haasil ki aur phir Indian Postal Service mein raha jahan se 2010 mein retire ho chuka hoon. is darmiyan 9 saal Army mein bhi deputation par raha aur as Lt col wapas postal dept mein aaya. India ki kayi riyaston mein kaam kiya hai. yehi wajah hai ki mere afsanon mein aap ki tanawuh mile ga. Mere afsane aap ko mere blog par mil sakte hain. Link hazir hai.
http://deepakbudki.com/haraf-e-aghaz-preface-to-chinar.../
- Salim Salik
ایک نووارد افسانہ نگار کو کن باتوں کو ملحوظ نظررکھنا چاہئے
Deepak Budki Jaisa ki aap ko maloom hai main ne Urdu mein koi formal taleem haasil nahi ki hai. Chinese mein ek proverb hai: Read the most, Speak less and write the least. Kisi bhi urdu ke talbi ilm ko agar afsane likhne mein dilchaspi ho to us ke liye zaroori hai ko woh MASTERS ke afsanon ko parhe aur baar baar parhe aur un ke afsanon ko tanqueedi zaviye se dekhe.(mutaalia) Aur phir khud qalm uthaye. naql na kare balki apna ek munfarid asloob dhoonde. Doosri ahm baat hai Mushahida.jab tak aadmi mushahida nahi karta hai woh achcha afsana nahi likh sakta. Aaj subh hi main ne kahin parh ki ek maaroof afsana nigar ne beesiyon baar TB hospital mein mareezon ka mushahida is liye kiya kyunki woh un par likhna chahta tha.hamari sab se kamzor karhi yehi hai ki hum mushida nahi karte. Maslan ek misal doon ek Kashmir ke qalmkar ne (Naam nahi loonga) likha hai ko Kashmir ke Bagh mein gul lala, narcissus, daffodil aur bouganvilla khile the. Kashmir mein bouganvilla khilte hi nahi - Farooq Rafiabadi
جناب برکی صاحب بلکل صحى.آپ کا بهت بهت شکىه. - Muzaffar Aazim
شکریہ بدکی صاحب مفصل جواب کے لیے۔ آپ کی کتابوں کی فہرست طویل ہے،۔ کشمیر کے تعلق سے آپ کی کونسی کتاب یا افسانے پہلے پڑھنے کی کوشش کروں گا، کچھ نام آپ بتانا چاہیں گے؟Deepak Budki Halanki adeeb ek maan ki tarah hota hai aur us ko apna har bachcha aziz hota hai taham aap mere blog par yeh afsane pehle parh sakte hain: Ghonsla; Achanak, Zebra crossing par khada Aadmi, Mukhbir, Ek Nihate makan ka rape (Kashmir ke hawale se) doosre aham afsane yun hain; Adhoori Kahani, Doctor Aunty, Mange ka Ujala, Jago, Ehtejaj. Mera doosra blog bhi hai jis ka link bhi hazir hai:
http://4.bp.blogspot.com/.../0NkEw.../s1600/Doctor+Aunty.gif
- Muneebur Rahman
بدکی صاحب، افسانہ لکھنے کے اپنے پروسیس کے بارے میں جس قدر ممکن ہو تفصیلا بتائیں کہ افسانہ آپ کے ذہن میں کس طرح جنم لیتا ہے اور پھر کن مراحل سے گزرتا ہے۔ کیا آپ باضابطہ ہوم ورک کرتے ہیں کہ افسانے کا ڈھانچہ کیسے تیار کیا جائے۔ اپنے کسی افسانے کے حوالے سے بات ہو تو اچھا۔
Deepak Budki Afsane likhne ka koi bandha tika asool main follow nahi karta. Main ne apne Majmooae Reza Reza Hayat ke Harfe Awwal mein likha tha " Main yeh dawa nahi karta ki main kahani nahi likhta balki kahani mujhe likhti hai kyunki mujhe poora ehsaas hai ki qalm uthane se pehle mere zehan ke parde par plot ki roop rekha aur kirdaron ke khadokhal wazeh hote hain. mera zehan kahani ko jis samt le jaana chahta hai, Morh leta hai. Meri yeh shaoori koshish rehti hai ki kahani na sirf pur taseer ho balki apne maqsad mein kamyab bhi ho.is liye mujhe yeh likhne mein koi baak nahi ki apn kahaniyan main khud likhta hoon aur un mein kisi aur ka dakhl nahi hota." Ab rahi koi misaal. Jab Kashmir mein 1990 mein mujhe Office Srinagar se Jammu shift karna parha to jammu mein koi sutable jagah nahi mil rahi thai. jaise taise Railway station ke paas apne hi deptt ki RMS buliding mein Office establish kiya. Main ne jab wahan apne liye kamra mukhtis kiya to wahan par Chadiya ka ek ghonsla dekha. Main ne apne sweeper ko hukum diya ki is ko saaf kar do magar us ne aisa karne se inkaar kar diya kyunki us mein ande (eggs) the. Mujhe gussa aya kyunki hum to roz hi ande khate hain, is liye khud hi us ghonsle ko utaar kar khirki se bahar phaink diya. Baat ayi gayi ho gayi. Magar baad mein jab main apni kursi par baith gaya to dil mein ek toofan sa utha. main sochne laga ki ek militant aur mujh mein kya farq hai. us ke paas taqat thi so mujh ko be ghar kar diya aur ab mere paas taqat hai aur chidiya nihati hai to main ne us ka ashiyana tabah kar diya. Magar main ne yeh afsana 2004 mein likha yani 14 saal ke baad, Tab tak main ne ghonsla, chadiyon ke rehan sehan wagairah ke bare mein mawad aur approprite lafz jamah kiye aur phir afsana likha jo Shair Mumbai ke September 2004 mein mere goshe ke tahat shaya hua aur kafi maqbool hua. - Muzaffar Aazim
بدکی صاحب، آج کی بزم میں بس ایک اور سوال۔
آپ کشمیری ہیں، کشمیر میں رہے ہیں، کشمیریوں میں آپ کی خاصی عزت ہے، یہ سب اچھی باتیں ہیں، دل خوش ہوا۔ آپ نے کشمیر کے جمہور کی زبان، کشمیری اور اس کے ادب کی، اپنی طور پر کچھ واقفیت ضرور حاصل کی ہوگی۔ آپ اس بارے میں کچھ کہنا چاہیں گے؟Deepak Budki Mere blog par kashmir ki history ke bare mein english mein mazameen hain. Kashmir mera madre watan hai magar badqismati se mujhe wahan se hijrat karni parhi aur ab Delhi ke paas Ghaziabad mein reh raha hoon. Kashmir HindoPak ki siyasat ka qurbani ka bakra ban gaya. Aisa secular culture main ne sare mulk main kahin nahi dekha jaisa hamare Kashmir main tha. Magar siyasatdanon ki karistani ka kya kijiye. Apne iqtedar ke liye woh kuch bhi karne ko tayar hote hain.Khair insaan to hijraton ka mara hai, so hum bhi shamil ho gaye. Is hawale se main ne ek kahani DUS INCH ZAMEEN likhi hai. yaad nahi blog par upload ki ya nahi. Ek 80 sala Sikh ne, jis ne 1947 mein hijrat ki thi, mujhe is kahani ke liye badhai di thi. Agar mere blog par na ho to main koshish karon ga ki is ko upload karon. Zara time lage ga kyunki type karna padega.
- اس بزم میں تشریف لانے کے لیے، سلیقے سے اور کھلے دل سے سوالات کا جواب دینے کے لیے، اور گھنتوں ٹایپ کرتے رہنے کی لیے آپ کا بہت بہت شکریہ۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ محفل اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ اس کے لیے سوالات پوچھنے والوں نے بھۍ ذہانت اور سلیقے کا ثبوت دیا ہے ﴿ارے، ان میں تو میں بھی ہوں۔۔۔خود ستائی!!!﴾۔ ان کی بھی داد دیتا ہوں۔
Mushtaq Mehdde Jinab Deepak Budki nay mukhtalif savalon kay jo javabaat diyay hain , in main danishvari ki chamak aur sachaye ki khushbo hay ......Yeh bi aik.nanga sach hay ke Kashmir kay urdu adeebon aur shairon kay sath barti print media nay hamasha hi sotali maa ka salook kiya hay. Voh log neech qusim kay ehsasi ( ham haln) main mubtala hain. - Nisar Azam
شکریہ بدکی صاحب
Labels:
adab,
Adhoore Chehre,
Afsana,
Afsana Nigar,
Afsananigari,
Deepak Budki,
InterviewWriting,
Jammu & Kashmir,
literature,
Manto,
migration,
Militancy,
Modern,
Politics,
Progressive,
shortstory,
Urdu,
urdukahani,
Writer
Subscribe to:
Posts (Atom)