دیپک بُدکی کے افسانے "قرضے کی دنیا" کا تجزیاتی مطالعہ
تجزیہ نگار: پرویز مانوس
دیپک بُدکی کا تعلق وادئ کشمیر سے ہے اور وہ افسانوی ادب کی کافی خدمت کر چُکے ہیں _ محکمہ انڈیا پوسٹ سے پوسٹ ماسٹر جنرل کے عہدے سے سُبکدوش ہونے کے بعد آج کل غازی آباد میں رہائش پزیر ہیں اور وہاں بھی اردو ادب کی مُسلسل بھر پور خدمت کرنے میں سرگرم عمل ہیں _ اُن کے کئی افسانوی مجموعے جن میں "چنار کے پنجے"ادھورے چہرے، مٹھی بھر ریت، یہ کیسا رشتہ، روح کا کرب، زیبرا کرسنگ پر کھڑا آدمی، اس کے علاوہ دو عدد ناول "آزادی اور اپنا اپنا سچ شائع ہو کر مقبولیت حاصل کرچکے ہیں، آج ہم اُن کے ایک افسانے "قرضے کی دُنیا" کا تجزیاتی مطالعہ پیش کریں گے_
دیپک بُدکی کا افسانہ "قرضے کی دنیا" جدید اور روایتی معاشرتی تصورات کے درمیان گہرے تضاد کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ کہانی قرض کے تصور اور اس کے اثرات کے گرد گھومتی ہے، جس میں بھوشن لال اور اس کے خاندان کی کہانی کے ذریعے پرانے اور نئے زمانے کے قرضے کی روایات کو پیش کیا گیا ہے_
مرکزی خیال:-
افسانہ "قرضے کی دُنیا" کا مرکزی خیال قرض کے سماجی، نفسیاتی، اور معاشی اثرات کو اجاگر کرنا ہے۔ افسانہ اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ کس طرح قرض نہ صرف فرد کی مالی حالت بلکہ اس کی ذہنی سکون، خاندانی تعلقات، اور معاشرتی زندگی کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اس کا مرکزی پیغام یہ ہے کہ قرض کی دنیا ایک ایسا جال ہے جس میں داخل ہونے کے بعد ابھیمنیو کی طرح نکلنا مشکل ہو جاتا ہے، اور یہ جال نہ صرف معاشی طور پر بلکہ اخلاقی اور نفسیاتی سطح پر بھی انسان کو جکڑ لیتا ہے_
مجموعی طور پر، "قرضے کی دنیا" کا مرکزی خیال یہ ہے کہ قرض ایک ایسی دنیا ہے جہاں انسان آزادی اور خودمختاری کھو بیٹھتا ہے، اور اس جال میں پھنس کر وہ نہ صرف مالی طور پر بلکہ اخلاقی اور نفسیاتی طور پر بھی متاثر ہوتا ہے۔
قرضے کا تاریخی اور روایتی تصور
کہانی کا آغاز قرضے کے روایتی تصور سے ہوتا ہے جب قرض کو ایک بوجھ سمجھا جاتا تھا جس سے بچنا ہی بہتر تھا۔ دیہاتی معاشروں میں قرض لینے سے کسان اپنی زمینیں کھو دیتے تھے اور غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ یہ بات بھوشن لال کے والد کے کردار کے ذریعے سامنے آتی ہے، جو ایک تاجر ہونے کے باوجود قرض لے کر اپنی زندگی برباد کر بیٹھتا ہے۔ یہ حصہ قرض کی اخلاقی پیچیدگیوں اور اس کے معاشرتی اثرات کو نمایاں کرتا ہے۔
قرض اور جدید دور
وقت کے ساتھ قرض کا تصور بدل جاتا ہے، اور اب قرض زندگی کا ایک لازمی جزو بن چکا ہے۔ افسانے میں یہ تبدیلی بھوشن لال کے بیٹوں کی زندگی میں نظر آتی ہے۔ وہ مختلف مقاصد کے لیے بڑے قرضے لیتے ہیں: شیام سندر اپنی اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ جاتا ہے اور سریندر اپنی کمپنی کھولنے کے لیے بھاری سرمایہ حاصل کرتا ہے۔ یہ حصہ موجودہ زمانے میں قرضے کی نئی حقیقت کو بیان کرتا ہے، جہاں تعلیم، تجارت، اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں ترقی کے لیے قرض لینا معمول بن چکا ہے۔
نسلی فرق اور مڈل کلاس کی جدوجہد
افسانے میں پرانی اور نئی نسل کے درمیان ایک واضح فرق نظر آتا ہے۔ بھوشن لال اپنے والد کی مثال دیکھ کر قرض سے بچنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اس کے بیٹے نئی دنیا کے تقاضوں کے تحت قرض لے کر کامیاب ہوتے ہیں۔ یہاں مڈل کلاس کی جدوجہد اور اس کی بدلتی ہوئی ضروریات کو اجاگر کیا گیا ہے، جس میں ترقی کے حصول کے لیے قرض کا استعمال ایک اہم ضرورت بن چکا ہے۔
قرضے کے نفسیاتی اثرات
کہانی میں قرض کے نفسیاتی اثرات کو بھی بیان کیا گیا ہے، خاص طور پر بھوشن لال کے کردار میں۔ وہ اپنے والد کے قرض کی مشکلات کو دیکھ کر خوفزدہ ہے، اور جب اس کے بیٹے کروڑوں کا قرض لیتے ہیں، تو وہ حیرت اور پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ اس بات کا عکاس ہے کہ قرض نہ صرف مالیاتی بوجھ ہوتا ہے بلکہ نفسیاتی دباؤ بھی پیدا کرتا ہے، جو نسل در نسل منتقل ہو سکتا ہے۔
معاشرتی اور معاشی تضاد
افسانے کا ایک اہم پہلو معاشرتی اور معاشی تضاد ہے۔ پرانا نظام قرض کو ایک لعنت سمجھتا تھا، جبکہ جدید دور میں قرض کو ترقی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ بھوشن لال کے بیٹوں کی کامیابی اور بھوشن لال کے والد کی ناکامی کے ذریعے اس تضاد کو عمدگی سے پیش کیا گیا ہے۔
کرداروں کے حرکات و سکنات:
افسانہ "قرضے کی دنیا" میں کرداروں کے حرکات و سکنات ان کی سوچ، معاشرتی مقام، اور حالات کے مطابق ہیں۔ یہ کردار اپنی اپنی زندگیوں میں قرض کے اثرات کے گرد گھومتے ہیں، اور ان کے رویے، عمل، اور فیصلے ان کے تجربات کی عکاسی کرتے ہیں۔
بھوشن لال
بھوشن لال کہانی کا مرکزی کردار ہے، جس کے حرکات و سکنات ایک مڈل کلاس شخص کی مالی جدوجہد کو ظاہر کرتے ہیں۔
قرض سے نفرت: بھوشن لال اپنے والد کی طرح قرض کے نتائج سے ڈر کر زندگی گزارتا ہے۔ اس کے والد کی جانب سے قرض لینے اور اس کے باعث معاشی مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد بھوشن لال نے یہ قسم کھا رکھی ہے کہ وہ کبھی قرض نہیں لے گا۔ اس کا یہ فیصلہ ماضی کے تجربات پر مبنی ہے۔
بیٹوں کی ترقی پر بے چینی: بھوشن لال اپنے بیٹوں کے فیصلوں پر بے چینی محسوس کرتا ہے، خاص طور پر جب وہ تعلیم اور کاروبار کے لیے بھاری قرضے لیتے ہیں۔ وہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں قرض کو خطرناک سمجھتا ہے، جبکہ اس کے بیٹے نئے دور کے تقاضوں کو اپناتے ہیں۔
عدم سمجھداری: بھوشن لال جدید دور کے قرضے کے نظام کو نہیں سمجھ پاتا۔ جب اس کے بیٹے کروڑوں کا قرض لیتے ہیں، تو وہ حیران اور پریشان ہو جاتا ہے۔ یہ اس کی مڈل کلاس پس منظر اور پرانے خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔
بھوشن لال کے والد
بھوشن لال کے والد کہانی کے ماضی میں موجود ایک اہم کردار ہیں، جن کے اعمال کہانی کا اہم موڑ فراہم کرتے ہیں۔
غلط فیصلہ: بھوشن لال کے والد نے اپنی تجارت کو بڑھانے کے لیے قرض لیا، لیکن اسے غلط جگہ خرچ کیا (مکان کی تجدید پر)۔ ان کا یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ قرض کو سمجھنے میں ناکام رہے اور ان کے اس عمل نے ان کی زندگی کو تباہ کر دیا۔
پریشانی اور جدوجہد: والد کی قرض چکانے کی جدوجہد ان کی پریشانی اور زندگی بھر کی ناکامی کا مظہر ہے۔ ان کی حرکات میں ایک بے بسی اور ناکامی کا عنصر ہے، جو کہانی میں قرض کے منفی اثرات کو اجاگر کرتا ہے۔
شیام سندر (بڑا بیٹا)
شیام سندر بھوشن لال کا بڑا بیٹا ہے، اور اس کے عمل جدید تعلیم اور ترقی کے لیے قرض کے استعمال کی عکاسی کرتے ہیں۔
تعلیمی قرض: شیام سندر اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ جانے کا ارادہ کرتا ہے، اور اس کے لیے بیس لاکھ روپے کا قرض لیتا ہے۔ اس کا یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ وہ تعلیم کو ترقی کا ذریعہ سمجھتا ہے اور قرض کو اس کے حصول کا ایک وسیلہ۔
عملیت پسندی: شیام سندر قرض کو ایک مالیاتی ضرورت کے طور پر قبول کرتا ہے، جو اس کے والد کے خیالات کے برخلاف ہے۔ وہ قرض لیتا ہے اور اسے چکانے کے لیے ملازمت بھی کرتا ہے، جو اس کی عملی اور جدید سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔
(منجری (بیٹی)
منجری بھوشن لال کی بیٹی ہے، اور اس کی حرکات و سکنات سماجی ترقی اور آزاد خیالی کی نمائندگی کرتی ہیں۔
شادی اور فلیٹ خریدنا: منجری اور اس کے شوہر نے دہلی میں فلیٹ خریدنے کے لیے ایک کروڑ کا قرض لیا۔ ان کا یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے والد کے برعکس قرض کو ترقی کا حصہ سمجھتے ہیں اور ایک بہتر زندگی کے لیے اس کا استعمال ضروری سمجھتے ہیں۔
سریندر (چھوٹا بیٹا)
سریندر کا کردار ایک نوجوان اور باصلاحیت انسان کا ہے، جو جدید دور کے تقاضوں کو سمجھتا ہے اور قرض کو بزنس میں کامیابی کے لیے اہم سمجھتا ہے۔
کاروباری قرض: سریندر نے آئی آئی ٹی سے انجینئرنگ کرنے کے بعد اپنی سافٹ ویئر کمپنی شروع کرنے کا ارادہ کیا اور اس کے لیے پچاس لاکھ کا سرمایہ اور پھر ایک کروڑ کا قرض لیا۔ اس کا یہ عمل جدید کاروباری دنیا میں قرض کے کردار کو ظاہر کرتا ہے، جہاں سرمایہ کاری اور قرض لینا ترقی کا لازمی حصہ ہے۔
پراعتماد اور خود مختار: سریندر اپنے والد کے خیالات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا راستہ چنتا ہے۔ اس کی حرکات میں خود اعتمادی اور آزاد خیالی نمایاں ہی_
مکالموں کی ادائیگی:-
افسانہ "قرضے کی دنیا" میں مکالموں کی ادائیگی کرداروں کے جذبات اور ان کے معاشرتی پس منظر کو گہرائی سے ظاہر کرتی ہے۔ ہر کردار کے مکالمے ان کے تجربات، خیالات، اور وقت کے ساتھ ان کے رویے کی نمائندگی کرتے ہیں۔
بھوشن لال کے مکالمے
بھوشن لال کے مکالموں میں قرض کے بارے میں اس کی نفرت اور خوف صاف ظاہر ہوتا ہے۔ وہ اپنے والد کے تجربے کی وجہ سے قرض سے نفرت کرتا ہے اور یہ بات مکالموں میں نمایاں ہوتی ہے۔ جیسے:
"میں کبھی قرض نہیں لوں گا، یہ تو تباہی کا راستہ ہے!"
اس جملے میں اس کے ماضی کے تجربات اور مستقبل کے خوف کی جھلک ملتی ہے۔
شیام سندر کے مکالمے
شیام سندر، بھوشن لال کا بیٹا، قرض کے بارے میں ایک جدید اور عملی سوچ رکھتا ہے۔ اس کے مکالمے سے اس کی عملی ذہنیت اور نئے زمانے کے تقاضے سمجھ میں آتے ہیں:
"تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے، اور تعلیم کے لیے قرض لینا کوئی برائی نہیں!"
یہ مکالمہ ظاہر کرتا ہے کہ شیام سندر کے نزدیک قرض ایک وسیلہ ہے، نہ کہ مصیبت۔
سریندر کے مکالمے
سریندر کا مکالمہ بھی جدیدیت اور خود اعتمادی کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کا اندازہ ان جملوں سے ہوتا ہے:
"بزنس کے لیے سرمایہ چاہیے، اور سرمایہ بغیر قرض کے کہاں سے آئے گا؟"
یہ مکالمہ اس کی خود اعتمادی اور کاروباری ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔
منجری کے مکالمے
منجری کے مکالمے ایک آزاد خیالی اور اپنی زندگی کی خود مختاری کو ظاہر کرتے ہیں۔ جیسے:
"ہم نے فلیٹ خریدنے کا فیصلہ کیا ہے، قرض سے کیا ڈرنا؟ یہ تو ہماری ضرورت ہے!"
یہ جملہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ قرض کو زندگی کے فیصلوں میں ایک ضروری عنصر سمجھتی ہے۔
مجموعی تجزیہ
مکالموں کی ادائیگی میں کرداروں کی انفرادی سوچ اور ان کے ماضی و حال کے تجربات کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ بھوشن لال کے مکالمے روایت پسندی اور ماضی کے خوف پر مبنی ہیں، جبکہ نئی نسل کے کرداروں کے مکالمے جدیدیت، عملی سوچ اور مستقبل کی طرف اعتماد کو ظاہر کرتے ہیں۔
افسانہ "قرضے کی دنیا" میں ماضی اور حال کا موازنہ مرکزی موضوع کے طور پر سامنے آتا ہے، جو کرداروں کی زندگیوں اور ان کے خیالات میں واضح تضاد کو اجاگر کرتا ہے۔ بھوشن لال کے کردار کے ذریعے ماضی کی تلخ یادوں اور روایتی سوچ کو پیش کیا گیا ہے، جبکہ اس کے بیٹوں اور بیٹی کی زندگیوں میں حال کی جدیدیت اور عملی سوچ کو دکھایا گیا ہے۔ یہ موازنہ کئی پہلوؤں میں نمایاں ہے:
قرض کا تصور: ماضی میں لعنت، حال میں ضرورت
ماضی کا نظریہ: بھوشن لال کے ماضی میں قرض ایک لعنت کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ اس نے اپنی زندگی کے تجربات سے سیکھا تھا کہ قرض انسان کو تباہ کر دیتا ہے۔
حال کا نظریہ: دوسری طرف، شیام سندر، منجری، اور سریندر کی نئی نسل قرض کو ایک ضرورت اور ترقی کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ آج کی دنیا میں قرض کو کاروبار، تعلیم، اور ذاتی ترقی کے لیے لازمی سمجھا جاتا ہے۔ ان کے لیے قرض ایک موقع فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے خواب پورے کر سکتے ہیں۔ یہ موازنہ بتاتا ہے کہ ماضی میں قرض کا تصور منفی تھا جبکہ آج کے دور میں اسے ایک مثبت ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
روایات اور جدیدیت: قدیم روایات بمقابلہ جدید خیالات
ماضی میں روایات: بھوشن لال ماضی کی قدیم روایات اور اصولوں کا پیروکار ہے۔ وہ زندگی میں سادگی، محنت، اور قرض سے بچنے کو اہمیت دیتا ہے۔ اس کی زندگی کا تجربہ اسے سکھاتا ہے کہ اپنی چادر کے مطابق پاؤں پھیلانے چاہئیں۔ وہ روایتی طور پر پیسے کا استعمال محدود رکھنے اور قرض سے بچنے کا حامی ہے۔
حال میں جدیدیت: حال میں، منجری اور شیام سندر جدید تعلیم اور ترقی کی سوچ رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کامیابی کے لیے قرض لینا ضروری ہے اور نئی سوچ کے مطابق زندگی کو بہتر بنانے کے لیے نئے وسائل استعمال کرنا لازمی ہے۔ ان کی زندگی میں فلیٹ خریدنا یا کاروبار کرنا اسی جدیدیت کا حصہ ہے، جو ماضی کے برعکس ہے۔
خاندانی سوچ: بزرگوں کی فکر بمقابلہ نئی نسل کی سوچ
ماضی میں خاندانی سوچ: ماضی میں خاندانوں میں بزرگوں کی بات کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی اور ان کے تجربات سے سبق لیا جاتا تھا۔ بھوشن لال اپنی زندگی کے تجربات کو اپنی اولاد کے ساتھ بانٹنے کی کوشش کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ بھی انہی اصولوں پر عمل کریں جو اس نے اپنی زندگی میں اپنائے۔
حال میں خاندانی سوچ: حال کی نسل اپنے فیصلوں میں خود مختار ہے اور بزرگوں کی روایتی سوچ سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہے۔ شیام سندر اور منجری اپنے والد کی فکر اور تجربات کو نظر انداز کرتے ہوئے جدید زندگی کے تقاضوں کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ وہ والد کی سوچ کو پرانی سمجھتے ہیں اور نئی دنیا کے حساب سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
معاشرتی تبدیلی: پرانی اور نئی اقدار
ماضی کی اقدار: بھوشن لال کے زمانے میں لوگ سادگی اور محدود وسائل میں جینے کو اہمیت دیتے تھے۔ قرض لینے کو نہ صرف مالیاتی خطرہ سمجھا جاتا تھا بلکہ اسے سماجی طور پر بھی ناپسند کیا جاتا تھا۔ لوگ اپنی حیثیت میں رہنے کو فوقیت دیتے تھے۔
حال کی اقدار: حال کی نسل معاشرتی طور پر زیادہ آزاد ہے اور قرض لینے کو ایک معمول کا حصہ سمجھتی ہے۔ معاشرتی ترقی اور مالی آزادی کو اہمیت دی جاتی ہے اور لوگ زندگی کے بڑے فیصلوں میں قرض کو ایک مددگار ذریعہ سمجھتے ہیں۔
مجموعی تاثر
"قرضے کی دنیا" میں ماضی اور حال کا موازنہ افسانے کا اہم ترین عنصر ہے جو کرداروں کے رویوں، سوچ، اور فیصلوں میں واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ بھوشن لال کے ذریعے ماضی کی زندگی کی مشکلات اور قرض کے منفی اثرات کو دکھایا گیا ہے، جبکہ نئی نسل کے کردار جدید دنیا میں قرض کو ایک ذریعہ ترقی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ افسانہ اس بات کو نمایاں کرتا ہے کہ کیسے وقت کے ساتھ خیالات اور اقدار بدل جاتی ہیں اور نئی نسل پرانے اصولوں کو چھوڑ کر اپنی راہیں خود بنانے کی کوشش کرتی ہے۔
افسانہ "قرضے کی دنیا" ایک دلچسپ اور گہرے معاشرتی مسئلے کی طرف اشارہ کرتا ہے: قرض اور اس کے انسانی زندگی پر اثرات۔ دیپک بُدکی نے اس افسانے کے ذریعے نہ صرف معاشرتی مسائل کو بیان کیا ہے بلکہ قرضے کے سماجی اور نفسیاتی پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا ہے_،،
********
آزاد بستی بٹی پورہ ویسٹ سرینگر
رابطہ:9419463487
The review is really wonderful literary Appendix to the published tretise of Shri Deepak Jee.
ReplyDeleteReading the review convinces me that the Book will receive widespread acclaim and readership.
God bless the author and grant him good health and Insatiating desire to produce more such literary works.
The journey from the study of Botany at the P.H. level to such an eminence in Urdu literature is mind boggling.
I would like to say, Deepak Ji, " we want more.".
Thanks a lot for your encouraging comments
Delete