Showing posts with label Tanqeed. Show all posts
Showing posts with label Tanqeed. Show all posts
Saturday, August 19, 2023
Lali Choudhary Ke Safarname-Ek Ijmali Jayza (Mahanama Khwateen Duniya, August 2023);لالی چودھری کے سفرنامے -ایک اجمالی جائزہ (ماہنامہ خواتین دنیا ، اگست ٢٠٢٣)
Lali Choudhary Ke Safarname-Ek Ijmali Jayza
Wednesday, September 6, 2017
Saturday, May 23, 2015
Abdul Ahad Azad: Tehqeeqi Ayeene Mein: عبدلأحد آزاد :تنقیدی ائینے میں (Urdu Mazmoon;اردو مضمون); Author: Dr A N Prashant; Reviewer: Deepak Budki
Labels:
adab,
Azad,
book Review,
Critical Essays,
deepakbudki,
Kashmir,
Kashmiri Adab,
literature,
Poems,
poetry,
Progressive Writing,
Research,
Romance,
Secularism,
Tanqeed,
Tehqeeq.,
Urdu,
Urdu Adab
Saturday, July 5, 2014
Daste Hinai:دست حنائی (Urdu/Afsana/اردو افسانہ ); Author: Manzoor Parwana; Reviewer: Deepak Budki
Labels:
adab,
Afsana,
Afsane,
Bookreview,
Criticism,
Deepak Budki,
fiction,
Kahani,
Katha,
literature,
shortstory,
Tabsere,
Tanqeed,
Urdu,
Urdu Adab,
urdukahani
Monday, May 19, 2014
Asri Taqaze(Tanqueedi Mazameen Wa Tabsere):عصری تقاضے (تنقیدی مضامین و تبصرے ) (Urdu/Tabsera); Author: Deepak Budki; Reviewer:Amin Banjara
Asri Taqaze(Tanqueedi Mazameen Wa Tabsere)
عصری تقاضے (تنقیدی مضامین و تبصرے )
Author: Deepak Budki:Reviewer:Amin Banjara
* BOOK: ASRI TAQAZE ; * AUTHOR: DEEPAK BUDKI; * EDITION: 2013
* GENRE: RESEARCH, CRITICISM & REVIEWS
* BINDING: PAPERBACK; * PAGES: 352 ;* PRICE: RS. 450/-
* ISBN NUMBER: ISBN-978-93-80691-53-4
* PUBLISHER: MEEZAN PUBLISHERS, SRINAGAR KASHMIR
عصری تقاضے : چند تاثرات
(میرے مضمون کی چند سطریں)
٭ دیپک بدکی صاحب اُردو دُنیا کا ایک مقبول و معروف نام ہے اور اپنے
افسانوی ادب کے طفیل اُنھوں نے کافی شہرت حاصل
کی ہے ۔۔ " ادھورے چہرے " ، "
چنار کے پنجے " ، " زیبرا کراسنگ پر کھڑا آدمی " اور " ریزہ ریزہ حیات "
اُن کے چار افسانوی مجموعے اُردو میں شائع ہو چکے ہیں۔ " ادھورے چہرے " اور
" چنار کے پنجے " دونوں مجموعے ہندی میں بھی چھپ چکے ہیں جن کی وجہ سے اُن
کے قاریئن کا حلقہ کافی وسیع ہوا ہے ۔۔ افسانہ نگار کے علاوہ اُن کو محقق ،
ناقد اور مبصر کے طور پر بھی جانا جاتا ہے ۔ اُن کے تنقیدی مضامین اور
تبصروں پر مشتمل اُن کی تین کتابیں " عصری تحریریں " ، " عصری شعور " اور "
عصری تقاضے " منظر عام پر آکر پذیرائی کا شرف حاصل کر چکی ہیں ۔۔ یہاں اُن
کی آخر الذ کر کتاب ہی میرے پیش نظر ہے لیکن اِس کتاب کے حوالے سے چند
جملے پیش کرنے سے قبل یہ بتانا لازم ہے کہ دیپک بدکی کی شخصیت اور اُن کے
فن پر ایک کتاب بعنوان " ورق ورق آیئنہ " شائع ہو چکی ہے جسے میرے عزیز
دوستوں پروفیسر شہاب عنایت ملک ، ڈاکٹر فرید پربتی (مرحوم) اور ڈاکٹر انور
ظہیر انصاری نے ترتیب دیا ہے ۔ اِس کے علاوہ جموں یونی ورسٹی جاوید اقبال
شاہ نامی ایک ریسرچ اسکالر کو دیپک بدکی کی افسانہ نگاری پر تحقیقی مقالہ
لکھنے کے لیے ایم- فل کی ڈگری بھی تفویض کر چکی ہے ۔۔۔
٭ دیپک بدکی کا تعلق ریاست جموں و کشمیر سے ہے لیکن ان دنوں وہ مستقل طور پر غازی آباد (یو پی) میں مقیم ہیں ۔۔ گزشتہ ماہ وہ جموں تشریف لائے تو اُنھوں نے مجھے فون کر کے اپنی آمد کے بارے میں بتایا ۔۔ میں اُن کا دیدار کرنے کے لئے جب اُن کی قیام گاہ پر پہنچا تو اُنھوں سب سے پہلے مجھے جن گراں مایہ تحائف سے نوازا ، وہ اُن کی تین تصانیف لطیف تھیں ، جن میں اُن کے دو افسانوی مجموعوں کے تازہ ایڈیشن تھے اور ایک تھی " عصری تقاضے " جس کا ذکر میں یہاں کر رہا ہوں ۔۔ اِس کتاب میں اُن کے ستر (70) تحقیقی و تنقیدی مضامین اور تبصرے شامل ہیں ۔۔ کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اُنھوں نے کم و بیش ہر ایک صنف سخن اور متفرق موضوعات پر لکھی ہوئی کتب کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے جن میں منٹویات ، شعر گوئی ، افسانہ نگاری ، افسانچہ نگاری ، ڈراما نگاری ، ناول نویسی ، طنز و مزاح ، انشائیہ نگاری ، خاکہ نگاری ، تحقیق و تنقید اور شکاریات شامل ہیں ۔۔ تبصرہ نگاری میں جہاں اُنھوں نے صاحبان کتب کی حوصلہ افزائی کے لیے تعریفی کلمات کا اظہار کیا ہے وہیں اشاروں اور کنایوں بلکہ کہیں کہیں واضح طور پر فنی اسقام کی نشان دہی کر کے اپنی بے باکی کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔۔۔ اُن کے تحقیقی و تنقیدی مضامین بڑے خاصے کی دستاویزات ہیں جن میں اُنھوں نے دانشورانہ اور مفکرانہ لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے بڑے ٹھوس دلائل کے ساتھ اپنے نظریات قاریئن کے سامنے پیش کئے ہیں ۔۔ اُنھیں اِس بات کا رنج ہے کہ تقسیم ملک کے بعد ہندوستان میں اُردو کے ساتھ بہت سی نا انصافیاں ہوئی ہیں اور گنگا جمنی تہذیب کے دھاروں کو کیسری اور ہرے رنگ میں رنگنے کی مذ موم کوششیں کی گئی ہیں ۔۔ وہ اِس بات پر ماتم کناں نظر آتے ہیں کہ اُردو کے تیئں بے جا غفلت اور نفرت کے دوران میں ہندوؤں کے اُن کارناموں کو بھی نظر انداز کر دیا گیا جو کار ہائے نمایاں اُنھوں نے اُردو زبان میں سر انجام دیئے تھے ۔۔۔ دیپک بدکی نے ایسی بہت سی تجاویز بھی پیش کی ہیں جن پر عمل کر کے اُردو کے لئے پھر سے ایک ساز گار ماحول تیار کیا جا سکتا ہے اور اِس زبان کو روزی روٹی کے ساتھ بھی جوڑا جا سکتا ہے ۔۔۔
٭ دیپک بدکی کی زبان اور طرز بیان کے اوصاف بھی قابل ذکر ہیں ۔ وہ سادہ ، شستہ اور رواں دواں زبان تصرف میں لاتے ہیں اور بڑے اہم اور پچیدہ معاملات اور نکات کو اپنے نکھرے ہوئے اسلوب میں بیان کر دیتے ہیں ۔ اُن کی تحریروں میں یہ محاسن اِس لئے نمایاں ہیں کہ وہ وسیع المطالعہ اور عمیق المشاہدہ ہونے کے ساتھ ساتھ فراخ دل بھی ہیں ۔۔ اُردو فکشن کے حوالے سے لکھے ہوئے اُن کے مضامین اور تبصرے بھی مطالعے سے تعلق رکھتے ہیں اور اِس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ فکشن کی سبھی اصناف پر اُن کی گرفت موجود ہے اور فکشن کے عالمی منظر نامے پر وہ گہری نگاہ رکھتے ہیں ۔ اِس کتاب کے "حرف آغاز" میں موجود اُن کے یہ جملے بہت متاثر کرتے ہیں کہ ۔۔۔ " اُردو میں نہ تو شاعروں کی کمی ہے اور نہ ہی نثر نگاروں کی ، نہ واعظوں کی کمی اور نہ منافقوں کی ۔۔ کمی اگر ہے تو سنجیدہ قاریئن کی اور غیر جانب دار نقادوں کی جو تنقید کو محض روزی روٹی کا وسیلہ یا گروہی نظریات کا اشتہار نہ سمجھ کر ادب کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔۔۔۔"
امین بنجارا
مکان نمبر 267
جوگی گیٹ ، جموں- پن کوڈ - 180001
٭ دیپک بدکی کا تعلق ریاست جموں و کشمیر سے ہے لیکن ان دنوں وہ مستقل طور پر غازی آباد (یو پی) میں مقیم ہیں ۔۔ گزشتہ ماہ وہ جموں تشریف لائے تو اُنھوں نے مجھے فون کر کے اپنی آمد کے بارے میں بتایا ۔۔ میں اُن کا دیدار کرنے کے لئے جب اُن کی قیام گاہ پر پہنچا تو اُنھوں سب سے پہلے مجھے جن گراں مایہ تحائف سے نوازا ، وہ اُن کی تین تصانیف لطیف تھیں ، جن میں اُن کے دو افسانوی مجموعوں کے تازہ ایڈیشن تھے اور ایک تھی " عصری تقاضے " جس کا ذکر میں یہاں کر رہا ہوں ۔۔ اِس کتاب میں اُن کے ستر (70) تحقیقی و تنقیدی مضامین اور تبصرے شامل ہیں ۔۔ کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اُنھوں نے کم و بیش ہر ایک صنف سخن اور متفرق موضوعات پر لکھی ہوئی کتب کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے جن میں منٹویات ، شعر گوئی ، افسانہ نگاری ، افسانچہ نگاری ، ڈراما نگاری ، ناول نویسی ، طنز و مزاح ، انشائیہ نگاری ، خاکہ نگاری ، تحقیق و تنقید اور شکاریات شامل ہیں ۔۔ تبصرہ نگاری میں جہاں اُنھوں نے صاحبان کتب کی حوصلہ افزائی کے لیے تعریفی کلمات کا اظہار کیا ہے وہیں اشاروں اور کنایوں بلکہ کہیں کہیں واضح طور پر فنی اسقام کی نشان دہی کر کے اپنی بے باکی کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔۔۔ اُن کے تحقیقی و تنقیدی مضامین بڑے خاصے کی دستاویزات ہیں جن میں اُنھوں نے دانشورانہ اور مفکرانہ لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے بڑے ٹھوس دلائل کے ساتھ اپنے نظریات قاریئن کے سامنے پیش کئے ہیں ۔۔ اُنھیں اِس بات کا رنج ہے کہ تقسیم ملک کے بعد ہندوستان میں اُردو کے ساتھ بہت سی نا انصافیاں ہوئی ہیں اور گنگا جمنی تہذیب کے دھاروں کو کیسری اور ہرے رنگ میں رنگنے کی مذ موم کوششیں کی گئی ہیں ۔۔ وہ اِس بات پر ماتم کناں نظر آتے ہیں کہ اُردو کے تیئں بے جا غفلت اور نفرت کے دوران میں ہندوؤں کے اُن کارناموں کو بھی نظر انداز کر دیا گیا جو کار ہائے نمایاں اُنھوں نے اُردو زبان میں سر انجام دیئے تھے ۔۔۔ دیپک بدکی نے ایسی بہت سی تجاویز بھی پیش کی ہیں جن پر عمل کر کے اُردو کے لئے پھر سے ایک ساز گار ماحول تیار کیا جا سکتا ہے اور اِس زبان کو روزی روٹی کے ساتھ بھی جوڑا جا سکتا ہے ۔۔۔
٭ دیپک بدکی کی زبان اور طرز بیان کے اوصاف بھی قابل ذکر ہیں ۔ وہ سادہ ، شستہ اور رواں دواں زبان تصرف میں لاتے ہیں اور بڑے اہم اور پچیدہ معاملات اور نکات کو اپنے نکھرے ہوئے اسلوب میں بیان کر دیتے ہیں ۔ اُن کی تحریروں میں یہ محاسن اِس لئے نمایاں ہیں کہ وہ وسیع المطالعہ اور عمیق المشاہدہ ہونے کے ساتھ ساتھ فراخ دل بھی ہیں ۔۔ اُردو فکشن کے حوالے سے لکھے ہوئے اُن کے مضامین اور تبصرے بھی مطالعے سے تعلق رکھتے ہیں اور اِس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ فکشن کی سبھی اصناف پر اُن کی گرفت موجود ہے اور فکشن کے عالمی منظر نامے پر وہ گہری نگاہ رکھتے ہیں ۔ اِس کتاب کے "حرف آغاز" میں موجود اُن کے یہ جملے بہت متاثر کرتے ہیں کہ ۔۔۔ " اُردو میں نہ تو شاعروں کی کمی ہے اور نہ ہی نثر نگاروں کی ، نہ واعظوں کی کمی اور نہ منافقوں کی ۔۔ کمی اگر ہے تو سنجیدہ قاریئن کی اور غیر جانب دار نقادوں کی جو تنقید کو محض روزی روٹی کا وسیلہ یا گروہی نظریات کا اشتہار نہ سمجھ کر ادب کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔۔۔۔"
امین بنجارا
مکان نمبر 267
جوگی گیٹ ، جموں- پن کوڈ - 180001
Monday, February 3, 2014
Kuch Lamhe Kuch Saye: کچھ لمحے کچھ ساۓ (UrduAfsane/اردو افسانے تبصرہ ); Author: Ashok Patwari; Reviewer; Deepak Budki
Kuch Lamhe Kuch Saye:کچھ لمحے کچھ ساۓ
(UrduAfsane/اردو افسانے تبصرہ )
Author:AshokPatwari Reviewer;DeepakBudki
Khamosh Sadayein:خاموش صدائیں (Urdu Afsane/افسانہ تبصرہ ); Author: Dr Renu Behl; Reviewer: Deepak Budki
Labels:
adab,
Afsana,
Afsane,
Bookreview,
Criticism,
deepakbudki,
Dr Renu Behl,
fiction,
Hindi,
Kahani,
Katha,
literature,
Sahitya,
shortstory,
Tabsera,
Tanqeed,
Urdu,
Urdu Adab,
urdukahani
Monday, January 20, 2014
Adhoore Chehre:ادھورے چہرے (Urdu Afsane/افسانہ تبصرہ ); Author: Deepak Budki; Reviewer: Paigham Afaqui
Adhoore Chehre:ادھورے چہرے
(UrduAfsana/افسانہ تبصرہ )
Author:DeepakBudkiReviewer:PaighamAfaqui
آپ کی دونوں کتابیں مل گئیں - اس تحفے کے لئے مشکور ہوں
- میں نے آپ کے سارے مقدمے بھی پڑھے جو اپنی بصیرت اور صاف گوئی کی وجہ سے
بہت پسند آئے - مزید باتیں بعد میں ہوں گی - آپ کے نظریات سے یقینا میری
سوچ کو تقویت ملی ہے - مخلص
پیغام آفاقی
آج میں نے ادھورے چہرے کی 6-7 کہانیاں پڑھی ہیں - حقیقت
میں شرابور ان کہانیوں کے کردار اپنے پورے ماحول کا بھرپور آئینہ بن کر
چلتے ہیں - وہ حقیقی ہیں اور معاشرے کے بدلتے ہوئے مزاج کے عکاس ہیں -
انداز بیان آپ کا اپنا ہے جو پڑھنے والے اور مصنف کے درمیان کسی بھی طرح کی
اجنبیت نہیں چھوڑتا- کہانی اپنے اطراف کو اس طرح پکڑ کر چلتی ہیں کہ جو
کچھ لکھا گیا ہے اس سے کئی گنا زیادہ بیان ہوتا جاتا ہے - اس اعتبار سے ان
میں بھر پور تخلیقی طاقت ہے - یہ کہانیاں بصیرت افروز، مصنوعی پن سے پاک
اور پر اسراریت سے بھرپور ہیں - میں مزید کہانیوں کو پڑھ کر اور آپ کی
کہانیوں کی انفرادیت کو بیان کرنے کے لئے مناسب الفاظ تلاش کرنے کے بعد ان
پر تفصیلی نوٹ لکھوں گا-
اردو کے ایک نامور افسانہ نگار دیپک بدکی اپنے افسانوی مجموعہ ' ادھورے چہرے ' کے تیسرے اڈیشن کے پیش لفظ میں کہتے ہیں :
" ادھورے چہرے کے پہلے اڈیشن پر آج تک جتنے بھی تبصرے چھپے
اردو کے ایک نامور افسانہ نگار دیپک بدکی اپنے افسانوی مجموعہ ' ادھورے چہرے ' کے تیسرے اڈیشن کے پیش لفظ میں کہتے ہیں :
" ادھورے چہرے کے پہلے اڈیشن پر آج تک جتنے بھی تبصرے چھپے
ان سب کو پڑھ کر
مجھے یہ محسوس ہوا کہ مجھے ان افسانوں کے
بارے میں کچھ کہنا باقی رہ گیا
ہے -ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پہلے ہی اڈیشن میں مجھے اپنی بات وضاحت کے
ساتھ پیش کرنی چاہئے تھی
مگر طوالت کے مد نظر میں نے گریز سے کام لیا - بہر
حال اب مجھ
سے رہا نہ گیا - انگریزی کے ایک ادیب نے سچ کہا ہے کہ مصنف
ہونے کے ناتے اپنی تخلیقات پر مجھ سے زیادہ اور کون روشنی ڈال
سکتا ہے -"
اردو کے ایک معتبر افسانہ نگار جس کے افسانوں کی قارئین میں مقبولیت اس سے ظاہر ہے کہ اس کے افسانوی مجموعے کے دوسرے اور تیسرے اڈیشن شائع ہورہے ہیں اور اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ قارئین تک اس کے افسانوں کی ترسیل ہورہی ہے اس کے افسانوں کی یا تو تنقید نگاروں تک ترسیل نہیں ہورہی ہے یا پھر تنقید نگاروں کی مانگ الگ ہے - قارئین اور تنقید نگاروں کے درمیان کا یہ فاصلہ اردو افسانوی ادب کے ایک اہم مسئلہ کی طرف اشارہ کر رہا ہے - حال ہی میں جب میں نے یہ نکتہ اٹھایا تھا تو اس پر یکے دکے ناقدین کو اعتراض ہوا تھا جن کا کہنا تھا کہ تخلیق کار کو اپنی تخلیقات کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہئے -
مجھے لگتا ہے کہ جو تخلیق کار اردو ادب پر حاوی نظریہ زدہ ادبی تحریکوں سے بغاوت کرتے ہوئے لکھتے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی تخلیقات کے بارے میں خود ضرور لکھیں کہ " ان کی تخلیقات پر ان سے بہتر روشنی کون ڈال سکتا ہے" اور اگر کوئی ڈال بھی سکتا ہے اور کسی وجہ سے نہیں ڈالنا چاہتا تو اس کا علاج اور کیا ہے -
جو لوگ ایسے ادیبوں کو نرگسیت کا شکار کہتے ہیں وہ دراصل کوتاہ نظری کے شکار ہیں - ھمارے اکثر تنقید نگار ا پنے ایک مخصوص حلقے سے جڑے ہو ئے ہیں-ا س کے سا تھ ساتھ انکے اپنے عقیدت مندوں ، چیلوں ، نذر گزاروں کا ایک جم غفیر بھی ہے ۔ جو تنقید نگار کی ہر بات کو چو م کے گرہ میں باندھ لیتا ہے ۔ کسی تنقید نگار نے اگر کہہ دیا کہ ابہام ہی تخلیق کا اصل حسن ہے تو سر تو ڑ کو شش کرنے لگتےہیں ایسی بات کر نے کی جس کا کو ئی سر ہو نہ پیر .... کسی دوسرے تنقید نگا ر نے اس کا الٹ کہہ دیا تو اس کے عقیدت مند اس بات کو لے اڑتے ہیں- اس لئے تنقید نگارون کا منہ تکنے کی ضرورت کیوں ہے ؟ میر نے کہا تھا شعر میرے ہیں گو خواص پسند / پر مجھے گفتگو عوام سے ہے ۔۔۔یہ عوام کون ہیں ۔۔ یہ قا ری ہیں کسی تخلیق کے اور ا ن تک ترسیل ہو رہی ہے تو کا فی ہے.... حالا نکہ یہ درست ہے کہ تخلیق کا ر اپنے لکھے یا کہے پر بہتر روشنی ڈال سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ سمجھا نے کی ضرورت اگر پڑے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ تر سیل نہیں ہو سکی اس خیال کی جو کو ئی تخلیق کار اپنے قاری تک پہچا نا چا ہتا ہے ۔۔ کچھ تخلیق کار اپنے مخصوص قاری تک اپنی بات پہچا نا چا ہتے ہیں اور وہ عوام سے مخا طب نہیں ہوتے انہیں کسی کو سمجھا نے کی ضرورت نہیں لیکن جو عوام سے مخا طب ہیں انکا لہجہ انکا انداز بیان انکا مواد ایسا ہو نا چا ہئے کہ بات پوری طرح خود بخود سمجھ میں آ جا ئے اور قاری پوری طرح بغیر سمجھا ئے ہی اس سے لطف اندوز ہو سکے ۔۔۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہر افسانہ نگار اور شا عر اپنی تخلیق کے ساتھ شر ح بھی شا ئع کرے ؟
اردو کے ایک معتبر افسانہ نگار جس کے افسانوں کی قارئین میں مقبولیت اس سے ظاہر ہے کہ اس کے افسانوی مجموعے کے دوسرے اور تیسرے اڈیشن شائع ہورہے ہیں اور اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ قارئین تک اس کے افسانوں کی ترسیل ہورہی ہے اس کے افسانوں کی یا تو تنقید نگاروں تک ترسیل نہیں ہورہی ہے یا پھر تنقید نگاروں کی مانگ الگ ہے - قارئین اور تنقید نگاروں کے درمیان کا یہ فاصلہ اردو افسانوی ادب کے ایک اہم مسئلہ کی طرف اشارہ کر رہا ہے - حال ہی میں جب میں نے یہ نکتہ اٹھایا تھا تو اس پر یکے دکے ناقدین کو اعتراض ہوا تھا جن کا کہنا تھا کہ تخلیق کار کو اپنی تخلیقات کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہئے -
مجھے لگتا ہے کہ جو تخلیق کار اردو ادب پر حاوی نظریہ زدہ ادبی تحریکوں سے بغاوت کرتے ہوئے لکھتے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی تخلیقات کے بارے میں خود ضرور لکھیں کہ " ان کی تخلیقات پر ان سے بہتر روشنی کون ڈال سکتا ہے" اور اگر کوئی ڈال بھی سکتا ہے اور کسی وجہ سے نہیں ڈالنا چاہتا تو اس کا علاج اور کیا ہے -
جو لوگ ایسے ادیبوں کو نرگسیت کا شکار کہتے ہیں وہ دراصل کوتاہ نظری کے شکار ہیں - ھمارے اکثر تنقید نگار ا پنے ایک مخصوص حلقے سے جڑے ہو ئے ہیں-ا س کے سا تھ ساتھ انکے اپنے عقیدت مندوں ، چیلوں ، نذر گزاروں کا ایک جم غفیر بھی ہے ۔ جو تنقید نگار کی ہر بات کو چو م کے گرہ میں باندھ لیتا ہے ۔ کسی تنقید نگار نے اگر کہہ دیا کہ ابہام ہی تخلیق کا اصل حسن ہے تو سر تو ڑ کو شش کرنے لگتےہیں ایسی بات کر نے کی جس کا کو ئی سر ہو نہ پیر .... کسی دوسرے تنقید نگا ر نے اس کا الٹ کہہ دیا تو اس کے عقیدت مند اس بات کو لے اڑتے ہیں- اس لئے تنقید نگارون کا منہ تکنے کی ضرورت کیوں ہے ؟ میر نے کہا تھا شعر میرے ہیں گو خواص پسند / پر مجھے گفتگو عوام سے ہے ۔۔۔یہ عوام کون ہیں ۔۔ یہ قا ری ہیں کسی تخلیق کے اور ا ن تک ترسیل ہو رہی ہے تو کا فی ہے.... حالا نکہ یہ درست ہے کہ تخلیق کا ر اپنے لکھے یا کہے پر بہتر روشنی ڈال سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ سمجھا نے کی ضرورت اگر پڑے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ تر سیل نہیں ہو سکی اس خیال کی جو کو ئی تخلیق کار اپنے قاری تک پہچا نا چا ہتا ہے ۔۔ کچھ تخلیق کار اپنے مخصوص قاری تک اپنی بات پہچا نا چا ہتے ہیں اور وہ عوام سے مخا طب نہیں ہوتے انہیں کسی کو سمجھا نے کی ضرورت نہیں لیکن جو عوام سے مخا طب ہیں انکا لہجہ انکا انداز بیان انکا مواد ایسا ہو نا چا ہئے کہ بات پوری طرح خود بخود سمجھ میں آ جا ئے اور قاری پوری طرح بغیر سمجھا ئے ہی اس سے لطف اندوز ہو سکے ۔۔۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہر افسانہ نگار اور شا عر اپنی تخلیق کے ساتھ شر ح بھی شا ئع کرے ؟
"۔۔۔۔
سوال یہ ہے کہ سمجھا نے کی ضرورت اگر پڑے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ ترسیل
نہیں ہو سکی اس خیال کی جو کو ئی تخلیق کار اپنے قاری تک پہچا نا چا ہتا ہے
۔۔ "
یہ خوبصورت بات ہے۔ اور "ترسیل نہ ہونے" کے کئی اسباب ممکن ہیں۔ جن میں سے ایک قاری کی ذہنی سطح بھی ہے۔ ۔۔۔۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ ۔۔۔ یہ پیمانہ ہی کیسے قائم ہو کہ کسی افسانے کی، تمام قارئین تک ترسیل نہیں ہو پائی؟
یہ خوبصورت بات ہے۔ اور "ترسیل نہ ہونے" کے کئی اسباب ممکن ہیں۔ جن میں سے ایک قاری کی ذہنی سطح بھی ہے۔ ۔۔۔۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ ۔۔۔ یہ پیمانہ ہی کیسے قائم ہو کہ کسی افسانے کی، تمام قارئین تک ترسیل نہیں ہو پائی؟
ھم
ہر قا ری کو تو سمجھا بھی نہیں سکتے اور سمجھا نا ضروری بھی نہیں ۔۔ کہ
ہر فنکار یا تخلیق کا ر کا اپنا ایک انداز ۔ اپنا ایک معیار ،اپنا ایک طرز
فکر ہو تا ہے ۔۔۔ اور وہ شخصیت اسکے فن میں کسی نہ کسی طور جھلک رہی ہوتی
ہے ۔۔ اصل چیز وہ حسن ہے تخلیق کا جو اپنی
گرفت میں لے لیتا ہے ۔ کچھ افسانہ نگار اپنی تحریر میں اور کچھ شا عر اپنی
شا عری میں ڈکشنری سے ڈھو نڈ ڈھو نڈ کے (گویا) بھاری بھرکم الفا ظ جڑ
دیتے ہیں جس سے سا را حسن غا رت ہو جا تا ہے اور بات سمجھ میں نہیں آ تی
۔۔ کچھ ابہام کا کہ وہ پر بیچ گلیا ں بنا دیتے ہیں کہ ان میں بھٹکتے عمر
گزر جا ئے اور رسائی کو راستہ نہ ملے ۔۔۔۔۔۔۔ لہذا جیسا کہ آ پ نے کہا قاری
کی اپنی ذہنی سطح کے مطا بق ہی تحریر کی پذیرائ ہو گی ۔۔۔۔۔۔ اور جن تک
بات پہچانی ہے ان تک پہیچ جا ے تو بہت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر جس تس کا منہ تکنے
یا جس تس کو سمجھا نے کی کیا ضرورت ہے ؟
اعتراض
کے حوالے سے غالبا آپ کا اشارہ میری طرف بھی ہے ۔مگر میں نے تو صرف ایک
سوال کیا تھا ۔جہاں تک مصنف کے بولنے کی بات ہے یہ حق اس سے کوئی بھی نہیں
چھین سکتا ۔لیکن مصنف کو اس وقت بولنا چاہئے جب دوسرے بول چکے ہوں ۔یا
تخلیق کو نظر انداز کر دیا گیا ہو ۔میرا
اعتراض صرف یہ ہے کہ تخلیق ،تخلیق کار کی اولاد کی طرح ہوتی ہے ۔اور ہر
ماں کو اپنا ہر بچہ پیارا لگتا ہے خواہ وہ معذور یا ناقابل دید ہی کیوں نہ
ہو ۔اس لئے مصنف کو اپنا یہ حق استعمال کرتے ہوئے احتیاط لازم ہے ۔اور اگر
وہ تنقید کے مندے کا شکار ہے تو اسے یہ بھی یقین رکھنا چاہئے کہ وہ بول کر
اپنی تخلیق کی قدر و قیمت میں کسی طرح بھی اضافہ نہیں کر سکتا ۔ایسی کوئی
مثال موجود نہیں ۔ہر تخلیق اپنے لئے سازگار حالات اور وقت کی منتظر ہوتی ہے
۔غالب اس کی ایک عمدہ مثال ہیں ۔علیٰ ہذالقیاس
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ایک چھوٹا سا سوال :
کیا دیپک بدکی اور پیغام آفاقی ۔۔۔ اردو افسانے کی واحد نمائندگی/رجحان سازی کرنے والے افسانہ نگار ہیں؟
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ایک چھوٹا سا سوال :
کیا دیپک بدکی اور پیغام آفاقی ۔۔۔ اردو افسانے کی واحد نمائندگی/رجحان سازی کرنے والے افسانہ نگار ہیں؟
Sarwat Khan matn
ka tayyun e qdr ka masla takhliqkar aur naqqad ke dermiyan fikri aur
nazaryati nizam ki jalwasaziyon ke do alehda raston ki pukaar hae,aik
matn ki rooh tak pohonchta hae,doosra makhsoos usloob e nigarish aurka
fikr o nazar ke daere me rehkar bandhe take usoolon ka derina raag
alapne me laga hua hae,phir maslehaton ka bhi moamla hae,chumkaar k bhi
faraiz ada karne haen,padhne k liye vaqt bhi nikalna padhta hae,itni
mehnataur fikr aajki tanqeed karne lage to fankar ko apni takhliq per
qalam uthane ki kahan zarurat hogi,bhai maere,manto tak ne naqqad ko
samjhaya,keya kiya jae
Thursday, January 16, 2014
Sa'adat Hasan Manto-Zati Yaddashton Par Mabni Auraq; سعادت حسن منٹو -ذاتی یاد داشتوں پر مبنی اوراق (UrduTabsera/اردو تبصرہ ); Author Abulhasan Naghmi; Reviewer:Deepak Budki
Sa'adat Hasan Manto-
Zati Yaddashton Par Mabni Auraq;
سعادت حسن منٹو -ذاتی یاد داشتوں پر مبنی اوراق
(UrduTabsera/اردو تبصرہ )
Auth:AbulHasanNaghmi;Reviewer:DeepakBudki
Labels:
adab,
Afsana,
Biography,
Bookreview,
Deepak
Budki,
Liquor,
literature,
Manto,
Memoirs,
Progressive Writing,
Prostitution,
Sex.,
sharab,
shortstory,
Swaneh.,
Tanqeed,
Taraqqi Pasand Tehreeq,
Tawaif,
Urdu,
urdukahani
Sa'adat Hasan Manto-Ek Nayi Tabeer: سعادت حسن منٹو -ایک نئی تعبیر (UrduTabsera/اردو تبصرہ ); Author: Prof Fateh Mohd Malik; Reviewer:Deepak Budki
Sa'adat Hasan Manto-Ek Nayi Tabeer
سعادت حسن منٹو -ایک نئی تعبیر
(UrduTabsera/اردو تبصرہ )
Auth:ProfFatehMohdMalikReview:DeepakBudki
Labels:
adab,
Afsana,
Bookreview,
Criticism,
Deepak Budki,
Desi sharab,
fiction,
literature,
Manto.,
Prostitution,
Religion,
Secularism,
Sex.,
shortstory,
Tabsere,
Tanqeed,
Taraqqi Pasand Tehreek,
Tawaif,
Urdu,
urdukahani
Friday, January 3, 2014
Taraqi Pasand Urdu Ghazal-Aghaz aur Irteqa: ترقی پسند اردو غزل -آغاز اور ارتقا (Urdu/Tabsera); Author: Dr Mohd Sadiq; Reviewer: Deepak Budki
Taraqi Pasand Urdu Ghazal-Aghaz aur Irteqa
ترقی پسند اردو غزل -آغاز اور ارتقا (Urdu/Tabsera)
Author:Dr Mohd Sadiq:Reviewer:Deepak Budki
Monday, July 8, 2013
Mera Nataki Safar; میرا ناٹکی سفر (تبصرہ ); Author: Dr Charan Das Sidhu; Rerviewed by Deepak Budki
Labels:
adab,
Autobiography,
Bookreview,
deepakbudki,
drama,
fiction,
literature,
Natak,
Play,
Stage,
Stage Plays,
Tabsere,
Tanqeed,
Urdu,
Urdu Adab,
UrduDrama
Subscribe to:
Posts (Atom)