Showing posts with label book Review. Show all posts
Showing posts with label book Review. Show all posts

Sunday, February 18, 2024

Deepak Budki : Hayat Aur Karname; Compiled by Sandeep Budki; Book Review by Zaki Tariq

Deepak Budki:Hayat Aur Karname
Compiled by Sandeep Budki
Book Review by Zaki Tariq










 


Saturday, August 19, 2023

Lali Choudhary Ke Safarname-Ek Ijmali Jayza (Mahanama Khwateen Duniya, August 2023);لالی چودھری کے سفرنامے -ایک اجمالی جائزہ (ماہنامہ خواتین دنیا ، اگست ٢٠٢٣)

Lali Choudhary Ke Safarname-Ek Ijmali Jayza
(Mahanama Khwateen Duniya, August 2023)
لالی چودھری کے سفرنامے -ایک اجمالی جائزہ
(ماہنامہ خواتین دنیا ، اگست ٢٠٢٣) 









 

Monday, May 19, 2014

Asri Taqaze(Tanqueedi Mazameen Wa Tabsere):عصری تقاضے (تنقیدی مضامین و تبصرے ) (Urdu/Tabsera); Author: Deepak Budki; Reviewer:Amin Banjara

Asri Taqaze(Tanqueedi Mazameen Wa Tabsere)
 عصری تقاضے (تنقیدی مضامین و تبصرے )  
 Author: Deepak Budki:Reviewer:Amin Banjara


* BOOK: ASRI TAQAZE ; * AUTHOR: DEEPAK BUDKI; * EDITION: 2013
* GENRE: RESEARCH, CRITICISM & REVIEWS
* BINDING: PAPERBACK; * PAGES: 352 ;* PRICE: RS. 450/-
* ISBN NUMBER: ISBN-978-93-80691-53-4
* PUBLISHER: MEEZAN PUBLISHERS, SRINAGAR KASHMIR

                                     عصری تقاضے : چند تاثرات
                                                                  
(میرے مضمون کی چند سطریں)

٭ دیپک بدکی صاحب اُردو دُنیا کا ایک مقبول و معروف نام ہے اور اپنے افسانوی ادب کے طفیل اُنھوں نے کافی شہرت حاصل 
کی ہے ۔۔ " ادھورے چہرے " ، " چنار کے پنجے " ، " زیبرا کراسنگ پر کھڑا آدمی " اور " ریزہ ریزہ حیات " اُن کے چار افسانوی مجموعے اُردو میں شائع ہو چکے ہیں۔ " ادھورے چہرے " اور " چنار کے پنجے " دونوں مجموعے ہندی میں بھی چھپ چکے ہیں جن کی وجہ سے اُن کے قاریئن کا حلقہ کافی وسیع ہوا ہے ۔۔ افسانہ نگار کے علاوہ اُن کو محقق ، ناقد اور مبصر کے طور پر بھی جانا جاتا ہے ۔ اُن کے تنقیدی مضامین اور تبصروں پر مشتمل اُن کی تین کتابیں " عصری تحریریں " ، " عصری شعور " اور " عصری تقاضے " منظر عام پر آکر پذیرائی کا شرف حاصل کر چکی ہیں ۔۔ یہاں اُن کی آخر الذ کر کتاب ہی میرے پیش نظر ہے لیکن اِس کتاب کے حوالے سے چند جملے پیش کرنے سے قبل یہ بتانا لازم ہے کہ دیپک بدکی کی شخصیت اور اُن کے فن پر ایک کتاب بعنوان " ورق ورق آیئنہ " شائع ہو چکی ہے جسے میرے عزیز دوستوں پروفیسر شہاب عنایت ملک ، ڈاکٹر فرید پربتی (مرحوم) اور ڈاکٹر انور ظہیر انصاری نے ترتیب دیا ہے ۔ اِس کے علاوہ جموں یونی ورسٹی جاوید اقبال شاہ نامی ایک ریسرچ اسکالر کو دیپک بدکی کی افسانہ نگاری پر تحقیقی مقالہ لکھنے کے لیے ایم- فل کی ڈگری بھی تفویض کر چکی ہے ۔۔۔
٭ دیپک بدکی کا تعلق ریاست جموں و کشمیر سے ہے لیکن ان دنوں وہ مستقل طور پر غازی آباد (یو پی) میں مقیم ہیں ۔۔ گزشتہ ماہ وہ جموں تشریف لائے تو اُنھوں نے مجھے فون کر کے اپنی آمد کے بارے میں بتایا ۔۔ میں اُن کا دیدار کرنے کے لئے جب اُن کی قیام گاہ پر پہنچا تو اُنھوں سب سے پہلے مجھے جن گراں مایہ تحائف سے نوازا ، وہ اُن کی تین تصانیف لطیف تھیں ، جن میں اُن کے دو افسانوی مجموعوں کے تازہ ایڈیشن تھے اور ایک تھی " عصری تقاضے " جس کا ذکر میں یہاں کر رہا ہوں ۔۔ اِس کتاب میں اُن کے ستر (70) تحقیقی و تنقیدی مضامین اور تبصرے شامل ہیں ۔۔ کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اُنھوں نے کم و بیش ہر ایک صنف سخن اور متفرق موضوعات پر لکھی ہوئی کتب کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے جن میں منٹویات ، شعر گوئی ، افسانہ نگاری ، افسانچہ نگاری ، ڈراما نگاری ، ناول نویسی ، طنز و مزاح ، انشائیہ نگاری ، خاکہ نگاری ، تحقیق و تنقید اور شکاریات شامل ہیں ۔۔ تبصرہ نگاری میں جہاں اُنھوں نے صاحبان کتب کی حوصلہ افزائی کے لیے تعریفی کلمات کا اظہار کیا ہے وہیں اشاروں اور کنایوں بلکہ کہیں کہیں واضح طور پر فنی اسقام کی نشان دہی کر کے اپنی بے باکی کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔۔۔ اُن کے تحقیقی و تنقیدی مضامین بڑے خاصے کی دستاویزات ہیں جن میں اُنھوں نے دانشورانہ اور مفکرانہ لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے بڑے ٹھوس دلائل کے ساتھ اپنے نظریات قاریئن کے سامنے پیش کئے ہیں ۔۔ اُنھیں اِس بات کا رنج ہے کہ تقسیم ملک کے بعد ہندوستان میں اُردو کے ساتھ بہت سی نا انصافیاں ہوئی ہیں اور گنگا جمنی تہذیب کے دھاروں کو کیسری اور ہرے رنگ میں رنگنے کی مذ موم کوششیں کی گئی ہیں ۔۔ وہ اِس بات پر ماتم کناں نظر آتے ہیں کہ اُردو کے تیئں بے جا غفلت اور نفرت کے دوران میں ہندوؤں کے اُن کارناموں کو بھی نظر انداز کر دیا گیا جو کار ہائے نمایاں اُنھوں نے اُردو زبان میں سر انجام دیئے تھے ۔۔۔ دیپک بدکی نے ایسی بہت سی تجاویز بھی پیش کی ہیں جن پر عمل کر کے اُردو کے لئے پھر سے ایک ساز گار ماحول تیار کیا جا سکتا ہے اور اِس زبان کو روزی روٹی کے ساتھ بھی جوڑا جا سکتا ہے ۔۔۔
٭ دیپک بدکی کی زبان اور طرز بیان کے اوصاف بھی قابل ذکر ہیں ۔ وہ سادہ ، شستہ اور رواں دواں زبان تصرف میں لاتے ہیں اور بڑے اہم اور پچیدہ معاملات اور نکات کو اپنے نکھرے ہوئے اسلوب میں بیان کر دیتے ہیں ۔ اُن کی تحریروں میں یہ محاسن اِس لئے نمایاں ہیں کہ وہ وسیع المطالعہ اور عمیق المشاہدہ ہونے کے ساتھ ساتھ فراخ دل بھی ہیں ۔۔ اُردو فکشن کے حوالے سے لکھے ہوئے اُن کے مضامین اور تبصرے بھی مطالعے سے تعلق رکھتے ہیں اور اِس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ فکشن کی سبھی اصناف پر اُن کی گرفت موجود ہے اور فکشن کے عالمی منظر نامے پر وہ گہری نگاہ رکھتے ہیں ۔ اِس کتاب کے "حرف آغاز" میں موجود اُن کے یہ جملے بہت متاثر کرتے ہیں کہ ۔۔۔ " اُردو میں نہ تو شاعروں کی کمی ہے اور نہ ہی نثر نگاروں کی ، نہ واعظوں کی کمی اور نہ منافقوں کی ۔۔ کمی اگر ہے تو سنجیدہ قاریئن کی اور غیر جانب دار نقادوں کی جو تنقید کو محض روزی روٹی کا وسیلہ یا گروہی نظریات کا اشتہار نہ سمجھ کر ادب کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔۔۔۔"

امین بنجارا
مکان نمبر 267
جوگی گیٹ ، جموں- پن کوڈ - 180001

Monday, January 20, 2014

Adhoore Chehre:ادھورے چہرے (Urdu Afsane/افسانہ تبصرہ ); Author: Deepak Budki; Reviewer: Paigham Afaqui

Adhoore Chehre:ادھورے چہرے 
(UrduAfsana/افسانہ تبصرہ )
Author:DeepakBudkiReviewer:PaighamAfaqui 

آپ کی دونوں کتابیں مل گئیں - اس تحفے کے لئے مشکور ہوں - میں نے آپ کے سارے مقدمے بھی پڑھے جو اپنی بصیرت اور صاف گوئی کی وجہ سے بہت پسند آئے - مزید باتیں بعد میں ہوں گی - آپ کے نظریات سے یقینا میری سوچ کو تقویت ملی ہے -                                                                                                                                                                         مخلص
                                                                     پیغام آفاقی

    آج میں نے ادھورے چہرے کی 6-7 کہانیاں پڑھی ہیں - حقیقت میں شرابور ان کہانیوں کے کردار اپنے پورے ماحول کا بھرپور آئینہ بن کر چلتے ہیں - وہ حقیقی ہیں اور معاشرے کے بدلتے ہوئے مزاج کے عکاس ہیں - انداز بیان آپ کا اپنا ہے جو پڑھنے والے اور مصنف کے درمیان کسی بھی طرح کی اجنبیت نہیں چھوڑتا- کہانی اپنے اطراف کو اس طرح پکڑ کر چلتی ہیں کہ جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے کئی گنا زیادہ بیان ہوتا جاتا ہے - اس اعتبار سے ان میں بھر پور تخلیقی طاقت ہے - یہ کہانیاں بصیرت افروز، مصنوعی پن سے پاک اور پر اسراریت سے بھرپور ہیں - میں مزید کہانیوں کو پڑھ کر اور آپ کی کہانیوں کی انفرادیت کو بیان کرنے کے لئے مناسب الفاظ تلاش کرنے کے بعد ان پر تفصیلی نوٹ لکھوں گا-
    اردو کے ایک نامور افسانہ نگار دیپک بدکی اپنے افسانوی مجموعہ ' ادھورے چہرے ' کے تیسرے اڈیشن کے پیش لفظ میں کہتے ہیں :
            " ادھورے چہرے کے پہلے اڈیشن پر آج تک جتنے بھی تبصرے چھپے
             ان سب کو پڑھ کر مجھے یہ محسوس ہوا کہ مجھے ان افسانوں کے 
             بارے میں کچھ کہنا باقی رہ گیا ہے -ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پہلے ہی                     اڈیشن میں مجھے اپنی بات وضاحت کے ساتھ پیش کرنی چاہئے تھی 
             مگر طوالت کے مد نظر میں نے گریز سے کام لیا - بہر حال اب مجھ
             سے رہا نہ گیا - انگریزی کے ایک ادیب نے سچ کہا ہے کہ مصنف 
             ہونے کے ناتے اپنی تخلیقات پر مجھ سے زیادہ اور کون روشنی ڈال
             سکتا ہے -"
    اردو کے ایک معتبر افسانہ نگار جس کے افسانوں کی قارئین میں مقبولیت اس سے ظاہر ہے کہ اس کے افسانوی مجموعے کے دوسرے اور تیسرے اڈیشن شائع ہورہے ہیں اور اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ قارئین تک اس کے افسانوں کی ترسیل ہورہی ہے اس کے افسانوں کی یا تو تنقید نگاروں تک ترسیل نہیں ہورہی ہے یا پھر تنقید نگاروں کی مانگ الگ ہے - قارئین اور تنقید نگاروں کے درمیان کا یہ فاصلہ اردو افسانوی ادب کے ایک اہم مسئلہ کی طرف اشارہ کر رہا ہے - حال ہی میں جب میں نے یہ نکتہ اٹھایا تھا تو اس پر یکے دکے ناقدین کو اعتراض ہوا تھا جن کا کہنا تھا کہ تخلیق کار کو اپنی تخلیقات کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہئے -
مجھے لگتا ہے کہ جو تخلیق کار اردو ادب پر حاوی نظریہ زدہ ادبی تحریکوں سے بغاوت کرتے ہوئے لکھتے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی تخلیقات کے بارے میں خود ضرور لکھیں کہ " ان کی تخلیقات پر ان سے بہتر روشنی کون ڈال سکتا ہے" اور اگر کوئی ڈال بھی سکتا ہے اور کسی وجہ سے نہیں ڈالنا چاہتا تو اس کا علاج اور کیا ہے -
جو لوگ ایسے ادیبوں کو نرگسیت کا شکار کہتے ہیں وہ دراصل کوتاہ نظری کے شکار ہیں - ھ
مارے اکثر تنقید نگار ا پنے ایک مخصوص حلقے سے جڑے ہو ئے ہیں-ا س کے سا تھ ساتھ انکے اپنے عقیدت مندوں ، چیلوں ، نذر گزاروں کا ایک جم غفیر بھی ہے ۔ جو تنقید نگار کی ہر بات کو چو م کے گرہ میں باندھ لیتا ہے ۔ کسی تنقید نگار نے اگر کہہ دیا کہ ابہام ہی تخلیق کا اصل حسن ہے تو سر تو ڑ کو شش کرنے لگتےہیں ایسی بات کر نے کی جس کا کو ئی سر ہو نہ پیر .... کسی دوسرے تنقید نگا ر نے اس کا الٹ کہہ دیا تو اس کے عقیدت مند اس بات کو لے اڑتے ہیں- اس لئے تنقید نگارون کا منہ تکنے کی ضرورت کیوں ہے ؟ میر نے کہا تھا شعر میرے ہیں گو خواص پسند / پر مجھے گفتگو عوام سے ہے ۔۔۔یہ عوام کون ہیں ۔۔ یہ قا ری ہیں کسی تخلیق کے اور ا ن تک ترسیل ہو رہی ہے تو کا فی ہے.... حالا نکہ یہ درست ہے کہ تخلیق کا ر اپنے لکھے یا کہے پر بہتر روشنی ڈال سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ سمجھا نے کی ضرورت اگر پڑے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ تر سیل نہیں  ہو سکی اس خیال کی جو کو ئی تخلیق کار اپنے قاری تک پہچا نا چا ہتا ہے ۔۔ کچھ تخلیق کار اپنے مخصوص قاری تک اپنی بات پہچا نا چا ہتے ہیں اور وہ عوام سے مخا طب نہیں ہوتے انہیں کسی کو سمجھا نے کی ضرورت نہیں لیکن جو عوام سے مخا طب ہیں انکا لہجہ انکا انداز بیان انکا مواد ایسا ہو نا چا ہئے کہ بات پوری طرح خود بخود سمجھ میں آ جا ئے اور قاری پوری طرح بغیر سمجھا ئے ہی اس سے لطف اندوز ہو سکے ۔۔۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہر افسانہ نگار اور شا عر اپنی تخلیق کے ساتھ شر ح بھی شا ئع کرے ؟

"۔۔۔۔ سوال یہ ہے کہ سمجھا نے کی ضرورت اگر پڑے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ ترسیل نہیں  ہو سکی اس خیال کی جو کو ئی تخلیق کار اپنے قاری تک پہچا نا چا ہتا ہے ۔۔ "
یہ خوبصورت بات ہے۔ اور "ترسیل نہ ہونے" کے کئی اسباب ممکن ہیں۔ جن میں سے ایک قاری کی ذہنی سطح بھی ہے۔ ۔۔۔۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ ۔۔۔ یہ پیمانہ ہی کیسے قائم ہو کہ کسی افسانے کی، تمام قارئین تک ترسیل نہیں ہو پائی؟
 ھم ہر قا ری کو تو سمجھا بھی نہیں سکتے اور سمجھا نا ضروری بھی نہیں ۔۔ کہ ہر فنکار یا تخلیق کا ر کا اپنا ایک انداز ۔ اپنا ایک معیار ،اپنا ایک طرز فکر ہو تا ہے ۔۔۔ اور وہ شخصیت اسکے فن میں کسی نہ کسی طور جھلک رہی ہوتی ہے ۔۔ اصل چیز وہ حسن ہے تخلیق کا جو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ۔ کچھ افسانہ نگار اپنی تحریر میں اور کچھ شا عر اپنی شا عری میں ڈکشنری سے ڈھو نڈ ڈھو نڈ کے (گویا) بھاری بھرکم الفا ظ جڑ دیتے ہیں جس سے سا را حسن غا رت ہو جا تا ہے اور بات سمجھ میں نہیں آ تی ۔۔ کچھ ابہام کا کہ وہ پر بیچ گلیا ں بنا دیتے ہیں کہ ان میں بھٹکتے عمر گزر جا ئے اور رسائی کو راستہ نہ ملے ۔۔۔۔۔۔۔ لہذا جیسا کہ آ پ نے کہا قاری کی اپنی ذہنی سطح کے مطا بق ہی تحریر کی پذیرائ ہو گی ۔۔۔۔۔۔ اور جن تک بات پہچانی ہے ان تک پہیچ جا ے تو بہت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر جس تس کا منہ تکنے یا جس تس کو سمجھا نے کی کیا ضرورت ہے ؟
 اعتراض کے حوالے سے غالبا آپ کا اشارہ میری طرف بھی ہے ۔مگر میں نے تو صرف ایک سوال کیا تھا ۔جہاں تک مصنف کے بولنے کی بات ہے یہ حق اس سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا ۔لیکن مصنف کو اس وقت بولنا چاہئے جب دوسرے بول چکے ہوں ۔یا تخلیق کو نظر انداز کر دیا گیا ہو ۔میرا اعتراض صرف یہ ہے کہ تخلیق ،تخلیق کار کی اولاد کی طرح ہوتی ہے ۔اور ہر ماں کو اپنا ہر بچہ پیارا لگتا ہے خواہ وہ معذور یا ناقابل دید ہی کیوں نہ ہو ۔اس لئے مصنف کو اپنا یہ حق استعمال کرتے ہوئے احتیاط لازم ہے ۔اور اگر وہ تنقید کے مندے کا شکار ہے تو اسے یہ بھی یقین رکھنا چاہئے کہ وہ بول کر اپنی تخلیق کی قدر و قیمت میں کسی طرح بھی اضافہ نہیں کر سکتا ۔ایسی کوئی مثال موجود نہیں ۔ہر تخلیق اپنے لئے سازگار حالات اور وقت کی منتظر ہوتی ہے ۔غالب اس کی ایک عمدہ مثال ہیں ۔علیٰ ہذالقیاس
 ------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 ایک چھوٹا سا سوال :
کیا دیپک بدکی اور پیغام آفاقی ۔۔۔ اردو افسانے کی واحد نمائندگی/رجحان سازی کرنے والے افسانہ نگار ہیں؟

 Sarwat Khan matn ka tayyun e qdr ka masla takhliqkar aur naqqad ke dermiyan fikri aur nazaryati nizam ki jalwasaziyon ke do alehda raston ki pukaar hae,aik matn ki rooh tak pohonchta hae,doosra makhsoos usloob e nigarish aurka fikr o nazar ke daere me rehkar bandhe take usoolon ka derina raag alapne me laga hua hae,phir maslehaton ka bhi moamla hae,chumkaar k bhi faraiz ada karne haen,padhne k liye vaqt bhi nikalna padhta hae,itni mehnataur fikr aajki tanqeed karne lage to fankar ko apni takhliq per qalam uthane ki kahan zarurat hogi,bhai maere,manto tak ne naqqad ko samjhaya,keya kiya jae

Friday, October 7, 2011

Deepak Budki's Profile: (English); Urdu Short Story Writer & Critic

Deepak Budki's Profile: (English) 
Urdu Short Story Writer & Critic 


Deepak Budki is a retired Indian Postal Service Officer (Retired in 2010 as Member Planning, Postal Services Board, New Delhi). He served in Army Postal Service Corps for 9 years on deputation attaining the rank of Lt Col. With basic education as M Sc (Botany) and B Ed, he graduated from National Defence College, New Delhi, India (ndc) as also became an Associate of Insurance Institute of India, Mumbai during his service career. His interests are Literature, Art and Painting, Cartooning, and Gardening besides Cricket. 
Being a renowned Urdu short-story writer, Budki's short stories numbering more than 150 besides 60 critical essays and 250 book reviews have been published in reputed magazines and newspapers all over the Urdu world. Many of the short stories stand translated into other languages like Hindi, English, Marathi, Telugu, Gojri and Kashmiri. He started writing short stories in 1970 when his first short story 'Salma' was published in Daily Hamdard, Srinagar, Kashmir. One of his short stories 'Reyzey' was televised by Door Darshan Srinagar in 1974. After joining Indian Postal service he gave up writing for almost 20 long years but 1996 saw the rebirth of the writer. Ever since his pen has been very active.
Deepak Budki has to his credit 8 collections of  Short Stories in Urdu viz  Adhoore Chehre, Chinar Ke Panje, Zebra Crossing par Khara Aadmi,  Reza Reza  Hayat, Ruh Ka Karab, Muthi Bhar Rait (Afsanche), Ab Main Wahan Nahi Rehta, Jadon Ki Talaash and Yeh Kaisa Rishta(Afsanche) ادھورے چہرے ، چنار کی پنجے ، زیبرا کراسنگ پر کھڑا آدمی ، ریزہ ریزہ حیات، روح کا کرب، مٹھی بھر ریت ، اب میں وہاں نہیں رہتا ، جڑوں کی تلاش،اور  یہ کیسا رشتہ  besides 8 Collections of Critical Essays and Book Reviews viz  Asri Tehreerein, Asri Shaoor, Asri Taqaze, Asri Tanazur, Asri Naqoosh, Adbi Mubahise, Jammu wa Kashmir Ka Asri Adab and Asri Zaviye  عصری تحریریں ، عصری شعور ، عصری تقاضے ، عصری تناظر ، عصری نقوش ، ادبی مباحثے ، جموں و کشمیر کا عصری ادب اور عصری زاوئیے. In addition, he has written two well-researched books Urdu Ke Ghair Muslim Afsana Nigar and Krishan Chander-Meri Nazar Mein ( اردو کے غیر مسلم افسانہ نگار اور کڑشن چندر -میری نظر میں ) and an Autobiography titled Lauhe Hayat (لوح حیات ). Two of his books, Adhoore Chehre and Chinar Ke Panje (अधूरे चेहरे, चिनार के पंजे ) have also been published in Hindi. As many as four Urdu magazines, Shair Monthly Mumbai, Intesaab Quarterly Sironj, Asbaque quarterly Pune and Almi Meeras, Pune brought out special supplements (Goshas) on the author while Intesaab Sironj issued a special number. The author's short stories received rave reviews from leading luminaries such as Qateel Shifai, Warris Alvi, Balraj Komal, Qamar Rais, Anwar Sadeed, Harcharan Chawla,Sultana Mehar etc. The deftness and the artistry with which Budki weaves his short stories has been much appreciated. His stories paint the agony of humanity and make the reader sit back and ponder over where humanity has gone wrong. In a rare compliment, Prof Qamar Rais writes;
The short stories create a unique and individualistic impression which is not seen in other contemporary writers. Whether it is Amma', 'Mange ka Ujala' or 'Chinar Ke Panje', every story has something to think and ponder about."
In 2006 Deepak Budki sprang up a surprise by coming out with a book on Critical Essays and Book Reviews titled 'Asri Tehreerein'. The book makes a critical study of works of Manak Tala, Gulzar, Dr. Brij Premi and Veerinder Patwari besides more than fifty reviews on books of contemporary writers. About his critical essays famous prose writer, Kaiser Tamkeen of Britain describes "Budki's work on Manak Tala to be as good as a dissertation which could have earned him a PhD degree". The book was followed by seven more books of Critical Essays and Book Reviews.
Recently the author came out with two well-researched books Urdu Ke Ghair Muslim Afsana Nigar which briefly encompasses the contribution of Non-Muslim short-story writers in Urdu and Krishan Chander-Meri Nazar mein. Besides this the author has also published his autobiography, Lauhe Hayat.
Four students  successfully submitted dissertations on Budki's works for their M Phil  degree while one student successfully submitted her thesis for her PhD degree as under:
  1. Deepak Budki ki Afsana Nigari by Javed Iqbal Shah submitted for M Phil degree to Jammu University 
  2. Deepak Budki ke Afsanon mein Niswani Kirdar by Mohammed Amin Najar submitted for M Phil degree to School of Humanities, University of Hyderabad, Telangana. 
  3. Deepak Budki Ki Afsana Nigari-Ruh Ka Karb aur Reza Reza Hayat Ke Hawale Se by Reyaz Ahmed Najar submitted for M Phil degree to School of Humanities, University of Hyderabad, Telangana.
  4. Deepak Budki ki Afsana Nigari Ka Fikri wa Funi Jayza by Amaria Rauf submitted for M Phil degree to Faculty of Islamic Studies and Oriental Learning, Government College Women University, Faislabad, Pakistan.
  5. Deepak Budki ke Takhleequi Afkar ka Tanqueedi mutala'a by Dr. Shaikh Sufia Bano Akhtar Hussain submitted for PhD Degree to M S University, Vadodra, Gujarat.  
Deepak Budki was awarded the 'Bhartiya Gaurav Award' by the International Friendship Society in 2009 which was handed over to him by Shri B N Singh, erstwhile Governor of Assam and Tamil Nadu. In 2019 he was awarded Dr Manzar Kazmi Award by Choudhary Charan Singh University, Meerut. 
He was also honored by Andhra Urdu Academy, Hyderabad, Sadhbavna Manch, Sironj, Bhopal and J&K Urdu Academy, Srinagar.