ابھی آپ کی یہ کہانی پڑھی۔ مرکزی خیال نیا تو نہیں البتہ متاثر کن ہے۔ پورا پڑھنے کے بعد اداسی کا تاثر قائم ہوتا ہے۔ کہانی کے ابتدائی حصے کے انداز بیان میں جوش و خروش پایا جاتا ہے جو درمیان سے بدلنا شروع ہوا ہے اور آخر میں اس میں اداسی پیدا ہو گئی ہے۔ مکالمے زیادہ ہیں۔ کم سے کم مکالموں کے ساتھ خارجی واقعات و مکالمات کے داخلی اثرات (جو راوی کے ذہن پر مرتب ہوئے) کو ادبی پیرائے میں بیان کرنا چاہیے تھا۔ راوی اور کیبرے ڈانسر کی کلب میں ملاقات کےدرمیان کا مکالمہ فطری نہیں معلوم ہوتا۔ دوسری ملاقات میں ہی بوسوں تک نوبت پہنچ گئی۔ ’’کتے کے بالوں میں ماضی کا ٹٹولنا‘‘ مجھے پتا نہیں کیوں بہت موزوں نہیں لگ رہا ہے، البتہ یہ کہانی کے مزاج سے ہم آہنگ ہے اور دلچسپ بھی۔ بھٹے کی مانند ماضی کا دانہ دانہ پھوٹنا اس کہانی کے ماحول میں فٹ نہیں بیٹھ رہا ہے، البتہ یہ بھی دلچسپ ہے۔ ایسے تجربے جاری رکھیے۔ روای اور کیبرے ڈانسر میں جدائی بھی اتنی جلدی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ یہاں تک کہانی کا پہلا حصہ ہے۔ تبادلے کے بعد کا حصہ اتنا مختصر نہیں ہونا چاہیے تھا۔ راوی کی کیبرے ڈانسر سے آخری ملاقات کی منظر کشی اور مکالمہ متاثر کن ہے۔ کہانی اخلاقی نوعیت کی ہے اور کچھ سبق آموز سی معلوم ہوتی ہے۔ ’’مانگے کا اجالا‘‘ کا جو اسلوب ہے وہی اس کہانی کا بھی ہے۔ اسلوب میں مزید ادبیت اور تجربہ لاتے رہیں۔ آپ نے موپاساں، چیخوف، او ہنری وغیرہ کے افسانے ضرور پڑھے ہوں گے۔ ان لوگوں کی کہانیاں دل پر اتنا اثر کیوں کرتی ہیں؟ آپ ان کی طرح لکھیں، میں یہ نہیں کہتا۔ لیکن قاری کے دل پر اثر کرنے اور دماغ کو چونکانے کوشش ضرور کریں۔
Tariq Ahmad Siddiqui Saheb سب سے پہلے اتنا بتاتا چلوں کی یہ کہانی ایک سچچی کہانی ہے اور اس کے کردار اور مکالمات حقیقت سے بہت قریب ہیں- رہا سوال وقت کا - بھائی پیار جتا نے اور اس کو تکمیل تک پہنچانے میں کتنا وقت لگتا ہے- ہاں ہمارا مشرقی ذہن چونکہ کنڈیشنڈ ہو چکا ہے اس لئے میٹروپولٹن شہروں کی تیز زندگی کی بارے میں سوچنے سے گھبراتا ہے- کہانی کی روانی اس کی بنت پر منحصر ہوتی ہے - زندگی میں ملنے ، پیار جتانے ، پیار میں ڈوب جانے اور پھر جدا ہونے میں وقت کی پابندی نہیں ہوتی - کبھی تو برسوں دو پریمی ایک دوسرے کو اپنے دل کی بات نہیں بتا پاتے اور کبھی یہی کام منٹوں میں ہو جاتا ہے- پھر بچھڑنے میں کیا ہے- باپ کی ٹرانسفر ہو گئی یا خود ٹرانسفر ہو گئے قصہ ختم- جہاں تک اسلوب کا سوال ہے میں نے موپسسان اور چیکوف دونوں کو پڑھا ہے - دونوں کا اسلوب جدا ہے اور دونوں موضوع کو الگ الگ طریقے سے پیش کرتے ہیں- ہاں رہی بات چونکانے والی- یہ طریقہ موپسسان اور منٹو نے خوب استعمال کیا ہے مگر اس کے بعد افسانہ نگاروں نے اس کو آھستہ آھستہ ترک کردیا تا کہ افسانے سے میلو ڈراماییت ختم ہو جائے- آپ کے تصورات پڑھ کر بہت خوشی ہوئی- امید ہے آیندہ بھی آپ اسی طرح اپنی راۓ دیتے رہیں گے-
ابھی آپ کی یہ کہانی پڑھی۔ مرکزی خیال نیا تو نہیں البتہ متاثر کن ہے۔ پورا پڑھنے کے بعد اداسی کا تاثر قائم ہوتا ہے۔ کہانی کے ابتدائی حصے کے انداز بیان میں جوش و خروش پایا جاتا ہے جو درمیان سے بدلنا شروع ہوا ہے اور آخر میں اس میں اداسی پیدا ہو گئی ہے۔ مکالمے زیادہ ہیں۔ کم سے کم مکالموں کے ساتھ خارجی واقعات و مکالمات کے داخلی اثرات (جو راوی کے ذہن پر مرتب ہوئے) کو ادبی پیرائے میں بیان کرنا چاہیے تھا۔
ReplyDeleteراوی اور کیبرے ڈانسر کی کلب میں ملاقات کےدرمیان کا مکالمہ فطری نہیں معلوم ہوتا۔ دوسری ملاقات میں ہی بوسوں تک نوبت پہنچ گئی۔ ’’کتے کے بالوں میں ماضی کا ٹٹولنا‘‘ مجھے پتا نہیں کیوں بہت موزوں نہیں لگ رہا ہے، البتہ یہ کہانی کے مزاج سے ہم آہنگ ہے اور دلچسپ بھی۔ بھٹے کی مانند ماضی کا دانہ دانہ پھوٹنا اس کہانی کے ماحول میں فٹ نہیں بیٹھ رہا ہے، البتہ یہ بھی دلچسپ ہے۔ ایسے تجربے جاری رکھیے۔ روای اور کیبرے ڈانسر میں جدائی بھی اتنی جلدی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ یہاں تک کہانی کا پہلا حصہ ہے۔ تبادلے کے بعد کا حصہ اتنا مختصر نہیں ہونا چاہیے تھا۔ راوی کی کیبرے ڈانسر سے آخری ملاقات کی منظر کشی اور مکالمہ متاثر کن ہے۔
کہانی اخلاقی نوعیت کی ہے اور کچھ سبق آموز سی معلوم ہوتی ہے۔ ’’مانگے کا اجالا‘‘ کا جو اسلوب ہے وہی اس کہانی کا بھی ہے۔ اسلوب میں مزید ادبیت اور تجربہ لاتے رہیں۔
آپ نے موپاساں، چیخوف، او ہنری وغیرہ کے افسانے ضرور پڑھے ہوں گے۔ ان لوگوں کی کہانیاں دل پر اتنا اثر کیوں کرتی ہیں؟ آپ ان کی طرح لکھیں، میں یہ نہیں کہتا۔ لیکن قاری کے دل پر اثر کرنے اور دماغ کو چونکانے کوشش ضرور کریں۔
Tariq Ahmad Siddiqui Saheb سب سے پہلے اتنا بتاتا چلوں کی یہ کہانی ایک سچچی کہانی ہے اور اس کے کردار اور مکالمات حقیقت سے بہت قریب ہیں- رہا سوال وقت کا - بھائی پیار جتا نے اور اس کو تکمیل تک پہنچانے میں کتنا وقت لگتا ہے- ہاں ہمارا مشرقی ذہن چونکہ کنڈیشنڈ ہو چکا ہے اس لئے میٹروپولٹن شہروں کی تیز زندگی کی بارے میں سوچنے سے گھبراتا ہے- کہانی کی روانی اس کی بنت پر منحصر ہوتی ہے - زندگی میں ملنے ، پیار جتانے ، پیار میں ڈوب جانے اور پھر جدا ہونے میں وقت کی پابندی نہیں ہوتی - کبھی تو برسوں دو پریمی ایک دوسرے کو اپنے دل کی بات نہیں بتا پاتے اور کبھی یہی کام منٹوں میں ہو جاتا ہے- پھر بچھڑنے میں کیا ہے- باپ کی ٹرانسفر ہو گئی یا خود ٹرانسفر ہو گئے قصہ ختم- جہاں تک اسلوب کا سوال ہے میں نے موپسسان اور چیکوف دونوں کو پڑھا ہے - دونوں کا اسلوب جدا ہے اور دونوں موضوع کو الگ الگ طریقے سے پیش کرتے ہیں- ہاں رہی بات چونکانے والی- یہ طریقہ موپسسان اور منٹو نے خوب استعمال کیا ہے مگر اس کے بعد افسانہ نگاروں نے اس کو آھستہ آھستہ ترک کردیا تا کہ افسانے سے میلو ڈراماییت ختم ہو جائے- آپ کے تصورات پڑھ کر بہت خوشی ہوئی- امید ہے آیندہ بھی آپ اسی طرح اپنی راۓ دیتے رہیں گے-
Delete