Monday, January 20, 2014

Adhoore Chehre:ادھورے چہرے (Urdu Afsane/افسانہ تبصرہ ); Author: Deepak Budki; Reviewer: Paigham Afaqui

Adhoore Chehre:ادھورے چہرے 
(UrduAfsana/افسانہ تبصرہ )
Author:DeepakBudkiReviewer:PaighamAfaqui 

آپ کی دونوں کتابیں مل گئیں - اس تحفے کے لئے مشکور ہوں - میں نے آپ کے سارے مقدمے بھی پڑھے جو اپنی بصیرت اور صاف گوئی کی وجہ سے بہت پسند آئے - مزید باتیں بعد میں ہوں گی - آپ کے نظریات سے یقینا میری سوچ کو تقویت ملی ہے -                                                                                                                                                                         مخلص
                                                                     پیغام آفاقی

    آج میں نے ادھورے چہرے کی 6-7 کہانیاں پڑھی ہیں - حقیقت میں شرابور ان کہانیوں کے کردار اپنے پورے ماحول کا بھرپور آئینہ بن کر چلتے ہیں - وہ حقیقی ہیں اور معاشرے کے بدلتے ہوئے مزاج کے عکاس ہیں - انداز بیان آپ کا اپنا ہے جو پڑھنے والے اور مصنف کے درمیان کسی بھی طرح کی اجنبیت نہیں چھوڑتا- کہانی اپنے اطراف کو اس طرح پکڑ کر چلتی ہیں کہ جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے کئی گنا زیادہ بیان ہوتا جاتا ہے - اس اعتبار سے ان میں بھر پور تخلیقی طاقت ہے - یہ کہانیاں بصیرت افروز، مصنوعی پن سے پاک اور پر اسراریت سے بھرپور ہیں - میں مزید کہانیوں کو پڑھ کر اور آپ کی کہانیوں کی انفرادیت کو بیان کرنے کے لئے مناسب الفاظ تلاش کرنے کے بعد ان پر تفصیلی نوٹ لکھوں گا-
    اردو کے ایک نامور افسانہ نگار دیپک بدکی اپنے افسانوی مجموعہ ' ادھورے چہرے ' کے تیسرے اڈیشن کے پیش لفظ میں کہتے ہیں :
            " ادھورے چہرے کے پہلے اڈیشن پر آج تک جتنے بھی تبصرے چھپے
             ان سب کو پڑھ کر مجھے یہ محسوس ہوا کہ مجھے ان افسانوں کے 
             بارے میں کچھ کہنا باقی رہ گیا ہے -ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پہلے ہی                     اڈیشن میں مجھے اپنی بات وضاحت کے ساتھ پیش کرنی چاہئے تھی 
             مگر طوالت کے مد نظر میں نے گریز سے کام لیا - بہر حال اب مجھ
             سے رہا نہ گیا - انگریزی کے ایک ادیب نے سچ کہا ہے کہ مصنف 
             ہونے کے ناتے اپنی تخلیقات پر مجھ سے زیادہ اور کون روشنی ڈال
             سکتا ہے -"
    اردو کے ایک معتبر افسانہ نگار جس کے افسانوں کی قارئین میں مقبولیت اس سے ظاہر ہے کہ اس کے افسانوی مجموعے کے دوسرے اور تیسرے اڈیشن شائع ہورہے ہیں اور اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ قارئین تک اس کے افسانوں کی ترسیل ہورہی ہے اس کے افسانوں کی یا تو تنقید نگاروں تک ترسیل نہیں ہورہی ہے یا پھر تنقید نگاروں کی مانگ الگ ہے - قارئین اور تنقید نگاروں کے درمیان کا یہ فاصلہ اردو افسانوی ادب کے ایک اہم مسئلہ کی طرف اشارہ کر رہا ہے - حال ہی میں جب میں نے یہ نکتہ اٹھایا تھا تو اس پر یکے دکے ناقدین کو اعتراض ہوا تھا جن کا کہنا تھا کہ تخلیق کار کو اپنی تخلیقات کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہئے -
مجھے لگتا ہے کہ جو تخلیق کار اردو ادب پر حاوی نظریہ زدہ ادبی تحریکوں سے بغاوت کرتے ہوئے لکھتے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی تخلیقات کے بارے میں خود ضرور لکھیں کہ " ان کی تخلیقات پر ان سے بہتر روشنی کون ڈال سکتا ہے" اور اگر کوئی ڈال بھی سکتا ہے اور کسی وجہ سے نہیں ڈالنا چاہتا تو اس کا علاج اور کیا ہے -
جو لوگ ایسے ادیبوں کو نرگسیت کا شکار کہتے ہیں وہ دراصل کوتاہ نظری کے شکار ہیں - ھ
مارے اکثر تنقید نگار ا پنے ایک مخصوص حلقے سے جڑے ہو ئے ہیں-ا س کے سا تھ ساتھ انکے اپنے عقیدت مندوں ، چیلوں ، نذر گزاروں کا ایک جم غفیر بھی ہے ۔ جو تنقید نگار کی ہر بات کو چو م کے گرہ میں باندھ لیتا ہے ۔ کسی تنقید نگار نے اگر کہہ دیا کہ ابہام ہی تخلیق کا اصل حسن ہے تو سر تو ڑ کو شش کرنے لگتےہیں ایسی بات کر نے کی جس کا کو ئی سر ہو نہ پیر .... کسی دوسرے تنقید نگا ر نے اس کا الٹ کہہ دیا تو اس کے عقیدت مند اس بات کو لے اڑتے ہیں- اس لئے تنقید نگارون کا منہ تکنے کی ضرورت کیوں ہے ؟ میر نے کہا تھا شعر میرے ہیں گو خواص پسند / پر مجھے گفتگو عوام سے ہے ۔۔۔یہ عوام کون ہیں ۔۔ یہ قا ری ہیں کسی تخلیق کے اور ا ن تک ترسیل ہو رہی ہے تو کا فی ہے.... حالا نکہ یہ درست ہے کہ تخلیق کا ر اپنے لکھے یا کہے پر بہتر روشنی ڈال سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ سمجھا نے کی ضرورت اگر پڑے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ تر سیل نہیں  ہو سکی اس خیال کی جو کو ئی تخلیق کار اپنے قاری تک پہچا نا چا ہتا ہے ۔۔ کچھ تخلیق کار اپنے مخصوص قاری تک اپنی بات پہچا نا چا ہتے ہیں اور وہ عوام سے مخا طب نہیں ہوتے انہیں کسی کو سمجھا نے کی ضرورت نہیں لیکن جو عوام سے مخا طب ہیں انکا لہجہ انکا انداز بیان انکا مواد ایسا ہو نا چا ہئے کہ بات پوری طرح خود بخود سمجھ میں آ جا ئے اور قاری پوری طرح بغیر سمجھا ئے ہی اس سے لطف اندوز ہو سکے ۔۔۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہر افسانہ نگار اور شا عر اپنی تخلیق کے ساتھ شر ح بھی شا ئع کرے ؟

"۔۔۔۔ سوال یہ ہے کہ سمجھا نے کی ضرورت اگر پڑے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ ترسیل نہیں  ہو سکی اس خیال کی جو کو ئی تخلیق کار اپنے قاری تک پہچا نا چا ہتا ہے ۔۔ "
یہ خوبصورت بات ہے۔ اور "ترسیل نہ ہونے" کے کئی اسباب ممکن ہیں۔ جن میں سے ایک قاری کی ذہنی سطح بھی ہے۔ ۔۔۔۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ ۔۔۔ یہ پیمانہ ہی کیسے قائم ہو کہ کسی افسانے کی، تمام قارئین تک ترسیل نہیں ہو پائی؟
 ھم ہر قا ری کو تو سمجھا بھی نہیں سکتے اور سمجھا نا ضروری بھی نہیں ۔۔ کہ ہر فنکار یا تخلیق کا ر کا اپنا ایک انداز ۔ اپنا ایک معیار ،اپنا ایک طرز فکر ہو تا ہے ۔۔۔ اور وہ شخصیت اسکے فن میں کسی نہ کسی طور جھلک رہی ہوتی ہے ۔۔ اصل چیز وہ حسن ہے تخلیق کا جو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ۔ کچھ افسانہ نگار اپنی تحریر میں اور کچھ شا عر اپنی شا عری میں ڈکشنری سے ڈھو نڈ ڈھو نڈ کے (گویا) بھاری بھرکم الفا ظ جڑ دیتے ہیں جس سے سا را حسن غا رت ہو جا تا ہے اور بات سمجھ میں نہیں آ تی ۔۔ کچھ ابہام کا کہ وہ پر بیچ گلیا ں بنا دیتے ہیں کہ ان میں بھٹکتے عمر گزر جا ئے اور رسائی کو راستہ نہ ملے ۔۔۔۔۔۔۔ لہذا جیسا کہ آ پ نے کہا قاری کی اپنی ذہنی سطح کے مطا بق ہی تحریر کی پذیرائ ہو گی ۔۔۔۔۔۔ اور جن تک بات پہچانی ہے ان تک پہیچ جا ے تو بہت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر جس تس کا منہ تکنے یا جس تس کو سمجھا نے کی کیا ضرورت ہے ؟
 اعتراض کے حوالے سے غالبا آپ کا اشارہ میری طرف بھی ہے ۔مگر میں نے تو صرف ایک سوال کیا تھا ۔جہاں تک مصنف کے بولنے کی بات ہے یہ حق اس سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا ۔لیکن مصنف کو اس وقت بولنا چاہئے جب دوسرے بول چکے ہوں ۔یا تخلیق کو نظر انداز کر دیا گیا ہو ۔میرا اعتراض صرف یہ ہے کہ تخلیق ،تخلیق کار کی اولاد کی طرح ہوتی ہے ۔اور ہر ماں کو اپنا ہر بچہ پیارا لگتا ہے خواہ وہ معذور یا ناقابل دید ہی کیوں نہ ہو ۔اس لئے مصنف کو اپنا یہ حق استعمال کرتے ہوئے احتیاط لازم ہے ۔اور اگر وہ تنقید کے مندے کا شکار ہے تو اسے یہ بھی یقین رکھنا چاہئے کہ وہ بول کر اپنی تخلیق کی قدر و قیمت میں کسی طرح بھی اضافہ نہیں کر سکتا ۔ایسی کوئی مثال موجود نہیں ۔ہر تخلیق اپنے لئے سازگار حالات اور وقت کی منتظر ہوتی ہے ۔غالب اس کی ایک عمدہ مثال ہیں ۔علیٰ ہذالقیاس
 ------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 ایک چھوٹا سا سوال :
کیا دیپک بدکی اور پیغام آفاقی ۔۔۔ اردو افسانے کی واحد نمائندگی/رجحان سازی کرنے والے افسانہ نگار ہیں؟

 Sarwat Khan matn ka tayyun e qdr ka masla takhliqkar aur naqqad ke dermiyan fikri aur nazaryati nizam ki jalwasaziyon ke do alehda raston ki pukaar hae,aik matn ki rooh tak pohonchta hae,doosra makhsoos usloob e nigarish aurka fikr o nazar ke daere me rehkar bandhe take usoolon ka derina raag alapne me laga hua hae,phir maslehaton ka bhi moamla hae,chumkaar k bhi faraiz ada karne haen,padhne k liye vaqt bhi nikalna padhta hae,itni mehnataur fikr aajki tanqeed karne lage to fankar ko apni takhliq per qalam uthane ki kahan zarurat hogi,bhai maere,manto tak ne naqqad ko samjhaya,keya kiya jae

No comments:

Post a Comment