Monday, May 19, 2014

Asri Taqaze(Tanqueedi Mazameen Wa Tabsere):عصری تقاضے (تنقیدی مضامین و تبصرے ) (Urdu/Tabsera); Author: Deepak Budki; Reviewer:Amin Banjara

Asri Taqaze(Tanqueedi Mazameen Wa Tabsere)
 عصری تقاضے (تنقیدی مضامین و تبصرے )  
 Author: Deepak Budki:Reviewer:Amin Banjara


* BOOK: ASRI TAQAZE ; * AUTHOR: DEEPAK BUDKI; * EDITION: 2013
* GENRE: RESEARCH, CRITICISM & REVIEWS
* BINDING: PAPERBACK; * PAGES: 352 ;* PRICE: RS. 450/-
* ISBN NUMBER: ISBN-978-93-80691-53-4
* PUBLISHER: MEEZAN PUBLISHERS, SRINAGAR KASHMIR

                                     عصری تقاضے : چند تاثرات
                                                                  
(میرے مضمون کی چند سطریں)

٭ دیپک بدکی صاحب اُردو دُنیا کا ایک مقبول و معروف نام ہے اور اپنے افسانوی ادب کے طفیل اُنھوں نے کافی شہرت حاصل 
کی ہے ۔۔ " ادھورے چہرے " ، " چنار کے پنجے " ، " زیبرا کراسنگ پر کھڑا آدمی " اور " ریزہ ریزہ حیات " اُن کے چار افسانوی مجموعے اُردو میں شائع ہو چکے ہیں۔ " ادھورے چہرے " اور " چنار کے پنجے " دونوں مجموعے ہندی میں بھی چھپ چکے ہیں جن کی وجہ سے اُن کے قاریئن کا حلقہ کافی وسیع ہوا ہے ۔۔ افسانہ نگار کے علاوہ اُن کو محقق ، ناقد اور مبصر کے طور پر بھی جانا جاتا ہے ۔ اُن کے تنقیدی مضامین اور تبصروں پر مشتمل اُن کی تین کتابیں " عصری تحریریں " ، " عصری شعور " اور " عصری تقاضے " منظر عام پر آکر پذیرائی کا شرف حاصل کر چکی ہیں ۔۔ یہاں اُن کی آخر الذ کر کتاب ہی میرے پیش نظر ہے لیکن اِس کتاب کے حوالے سے چند جملے پیش کرنے سے قبل یہ بتانا لازم ہے کہ دیپک بدکی کی شخصیت اور اُن کے فن پر ایک کتاب بعنوان " ورق ورق آیئنہ " شائع ہو چکی ہے جسے میرے عزیز دوستوں پروفیسر شہاب عنایت ملک ، ڈاکٹر فرید پربتی (مرحوم) اور ڈاکٹر انور ظہیر انصاری نے ترتیب دیا ہے ۔ اِس کے علاوہ جموں یونی ورسٹی جاوید اقبال شاہ نامی ایک ریسرچ اسکالر کو دیپک بدکی کی افسانہ نگاری پر تحقیقی مقالہ لکھنے کے لیے ایم- فل کی ڈگری بھی تفویض کر چکی ہے ۔۔۔
٭ دیپک بدکی کا تعلق ریاست جموں و کشمیر سے ہے لیکن ان دنوں وہ مستقل طور پر غازی آباد (یو پی) میں مقیم ہیں ۔۔ گزشتہ ماہ وہ جموں تشریف لائے تو اُنھوں نے مجھے فون کر کے اپنی آمد کے بارے میں بتایا ۔۔ میں اُن کا دیدار کرنے کے لئے جب اُن کی قیام گاہ پر پہنچا تو اُنھوں سب سے پہلے مجھے جن گراں مایہ تحائف سے نوازا ، وہ اُن کی تین تصانیف لطیف تھیں ، جن میں اُن کے دو افسانوی مجموعوں کے تازہ ایڈیشن تھے اور ایک تھی " عصری تقاضے " جس کا ذکر میں یہاں کر رہا ہوں ۔۔ اِس کتاب میں اُن کے ستر (70) تحقیقی و تنقیدی مضامین اور تبصرے شامل ہیں ۔۔ کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اُنھوں نے کم و بیش ہر ایک صنف سخن اور متفرق موضوعات پر لکھی ہوئی کتب کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے جن میں منٹویات ، شعر گوئی ، افسانہ نگاری ، افسانچہ نگاری ، ڈراما نگاری ، ناول نویسی ، طنز و مزاح ، انشائیہ نگاری ، خاکہ نگاری ، تحقیق و تنقید اور شکاریات شامل ہیں ۔۔ تبصرہ نگاری میں جہاں اُنھوں نے صاحبان کتب کی حوصلہ افزائی کے لیے تعریفی کلمات کا اظہار کیا ہے وہیں اشاروں اور کنایوں بلکہ کہیں کہیں واضح طور پر فنی اسقام کی نشان دہی کر کے اپنی بے باکی کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔۔۔ اُن کے تحقیقی و تنقیدی مضامین بڑے خاصے کی دستاویزات ہیں جن میں اُنھوں نے دانشورانہ اور مفکرانہ لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے بڑے ٹھوس دلائل کے ساتھ اپنے نظریات قاریئن کے سامنے پیش کئے ہیں ۔۔ اُنھیں اِس بات کا رنج ہے کہ تقسیم ملک کے بعد ہندوستان میں اُردو کے ساتھ بہت سی نا انصافیاں ہوئی ہیں اور گنگا جمنی تہذیب کے دھاروں کو کیسری اور ہرے رنگ میں رنگنے کی مذ موم کوششیں کی گئی ہیں ۔۔ وہ اِس بات پر ماتم کناں نظر آتے ہیں کہ اُردو کے تیئں بے جا غفلت اور نفرت کے دوران میں ہندوؤں کے اُن کارناموں کو بھی نظر انداز کر دیا گیا جو کار ہائے نمایاں اُنھوں نے اُردو زبان میں سر انجام دیئے تھے ۔۔۔ دیپک بدکی نے ایسی بہت سی تجاویز بھی پیش کی ہیں جن پر عمل کر کے اُردو کے لئے پھر سے ایک ساز گار ماحول تیار کیا جا سکتا ہے اور اِس زبان کو روزی روٹی کے ساتھ بھی جوڑا جا سکتا ہے ۔۔۔
٭ دیپک بدکی کی زبان اور طرز بیان کے اوصاف بھی قابل ذکر ہیں ۔ وہ سادہ ، شستہ اور رواں دواں زبان تصرف میں لاتے ہیں اور بڑے اہم اور پچیدہ معاملات اور نکات کو اپنے نکھرے ہوئے اسلوب میں بیان کر دیتے ہیں ۔ اُن کی تحریروں میں یہ محاسن اِس لئے نمایاں ہیں کہ وہ وسیع المطالعہ اور عمیق المشاہدہ ہونے کے ساتھ ساتھ فراخ دل بھی ہیں ۔۔ اُردو فکشن کے حوالے سے لکھے ہوئے اُن کے مضامین اور تبصرے بھی مطالعے سے تعلق رکھتے ہیں اور اِس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ فکشن کی سبھی اصناف پر اُن کی گرفت موجود ہے اور فکشن کے عالمی منظر نامے پر وہ گہری نگاہ رکھتے ہیں ۔ اِس کتاب کے "حرف آغاز" میں موجود اُن کے یہ جملے بہت متاثر کرتے ہیں کہ ۔۔۔ " اُردو میں نہ تو شاعروں کی کمی ہے اور نہ ہی نثر نگاروں کی ، نہ واعظوں کی کمی اور نہ منافقوں کی ۔۔ کمی اگر ہے تو سنجیدہ قاریئن کی اور غیر جانب دار نقادوں کی جو تنقید کو محض روزی روٹی کا وسیلہ یا گروہی نظریات کا اشتہار نہ سمجھ کر ادب کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔۔۔۔"

امین بنجارا
مکان نمبر 267
جوگی گیٹ ، جموں- پن کوڈ - 180001

No comments:

Post a Comment