دیپک بُدکی بحیثیت افسانہ نگار
--مشتاق احمد بٹ
لیکچرر اردو ،گورنمنٹ ڈگری کالج ،پونی
دیپک بُدکی کا شمار ریاست جموں و کشمیر کے ممتاز افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے ۔ان کے افسانوں کا کینواس بہت وسیع ہے اور بہت دور تک پھیلا ہوا ہے ۔انہوں نے نہ صرف کشمیر بلکہ ملک کے دیگر حصوں کے مسائل کو اپنے افسانوں میں نہایت ہی سلیقے سے برتا ہے ۔وہ اپنی محنت شاقہ کی بدولت ایسے کردار ہمارے سامنے لاتے ہیں جن کا تعلق ہر شعبہ اور ہر طبقہ سے ہوتا ہے۔ ان کے افسانے آشنائی کا پتہ دیتے ہیں ۔اپنے افسانوں میں موجودہ درد وکرب کی عکاسی رنگا رنگ الفاظ کے ذریعے کرتے ہوئے ماحول کو پر کشش بنانے کی کوشش کرتے ہے ۔دیپک کمار بُدکی نام لیکن ادبی دنیا میںانہیں دیپک بدکی کے نام سے ہی جانا اور پہچانا جاتا ہے۔آپ کی پیدایش ۱۹۵۰ء میں سرینگر (کشمیر) میں ہوئی۔ دیپک بدکی کا اصل میدان افسانہ ہے ۔اردو اور ہندی،دونوں زبانوں میں وہ گذشتہ چالیس برس سے افسانے لکھ رہے ہیں ۔اب تک ان کے چھیانوے افسانے اور ایک سو چار افسانچے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوکر منظر عام پر آچکے ہیں ۔ان کے افسانوی مجموعوں کے نا م بالترتیب اسطرح ہیں :ادھورے چہرے،چنار کے پنجے،زیبرا کراسنگ پر کھڑا آدمی،ریزہ ریزہ حیات،روح کا کرب اور مٹھی بھر ریت ۔ان کی افسانہ نگاری پر بلراج کومل اپنے خیالات کا اظہار یوں کرتے ہیں :
’’ آپ کے افسانے گہرے مشاہدے اور انسانی رشتوں کو سمجھنے کے عمل
میں کامیاب تخلیقی ترسیل کی منزل تک پہنچتے ہیں ۔آپ کے یہاں تجسیم
کا عمل نہایت ملائمت سے تکمیل سے سرفراز ہوا ہیں ‘‘ ۔ ؎۱
ہندو پاک کے ممتاز افسانہ نگاروں کی فہرست میں دیپک بُدکی کا نام بھی شامل ہے ۔ان کے افسانے فنی اعتبار سے مربوط ہیں ،سادہ زبان اور اپنے بیانیہ کی وجہ سے اپنے اندر بڑی اپیل رکھتے ہیں۔ان کے افسانوں میں ایک عجیب وغریب بات یہ بھی ہے کہ ان کے یہاں ایک قسم کا چرخہ کار گر نظر آتا ہے۔دیپک بدکی ابتدا ء ہی سے مختلف رنگوں کے تار و پود سے اپنے افسانے کی بنت تیار کرتے ہیں اور افسانے سے متعلق اپنی اختراع کی ہوئی ہنر کو برمحل استعمال میں لاتے ہوئے موضوع کے عین مطابق الفاظ کا انتخاب کرکے اسے نگینے کی طرح جڑ دیتے ہیں ۔اس اہم صلاحیت کی وساطت سے ہی یہ افسانے قاری کو اپنے طرف مضبوطی سے کھینچے رکھتا ہے ۔پلاٹ کو دیپک بدکی اپنے گرفت میں لے کر اس قدر چھانٹتے پھٹکتے ہیں کہ سارے عیوب خس و خاشاک کی مانند الگ ہوجاتے ہیں ۔جس کی بدولت ان کے افسانے ریزہ ریزہ ہو کر بکھرنے سے محفوظ رہ جاتے ہیں اور پھر ایک نئی مربوط شکل اختیار کرکے آہستہ آہستہ اعتماد کی سیڑھیوں پر قدم رکھتے ہوئے پایہ تکمیل کی منزلوں تک پہنچ کر اپنی کامیابی درج کرتے ہیں ۔ان کی افسانہ نگاری کے حوالے سے ڈاکٹر خان حفیظ ؔ یوں رقمطراز ہیں :
’’دیپک بدکی اپنے افسانوی کردار وں کو جاذبِ نظر بنانے کے لیے ابتداء
ہی سے انہیں ہنر مند اور جفا کش بنانے کی جدو جہد میں لگ جاتے ہیں ۔
جب وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو پھر مکالموں کے آبشار کی
دھاراؤںکو پکڑ کر بلندی پر چڑھانے کا غیر ممکن عمل کرتے ہیں ۔اپنی
پوشیدہ فن کاریوں سے کرتب بازیاں دکھانے کے لیے راضی کرکے انہیں
وہاں سے چھلانگ لگوادیتے ہیں ۔یہ دیکھ کر قاری جہاں حیرت زدہ ہوکر
سوز وگداز سے ہم آہنگ ہوکر مضمحل ہوجاتا ہے ٹھیک اسی وقت دیپک
بدکی اپنے بہترین جملوں سے انہیں فرط وانبساط سے غسل دے کر پھر سے
تر وتازہ کردیتے ہیں ۔زبان کی سلاست اور جملوں کی ساخت پر خاص توجہ
دینے کے باعث ان کی تحریروں میں برجستگی اور روانی کے ساتھ جاذبیت اور
دلکشی در آتی ہے ۔اس طلسم سے قاری سحر زدہ ہو کر ایک ایک لفظ پر غور
خوض کرتا ہوا دلجمعی سے ان افسانوں اور مضامین کو ایک نشت میں پڑھ کر
لطف اندوز ہوتا ہوادیپک بدکی کے اندرونی کرب کو محسوس کرتا ہوا حقیقت کے
قریب پہنچ جات ہے ‘‘۔ ؎۲
دیپک بدکی اپنے افسانوں میں جہاں سیاسی ،سماجی برائیوں اور فرقہ واریت ،غریب عوام کی کسمپرسی، استحصال وغیرہ مسائل پر احتجاج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں وہیں عورتوںکی نفسیات اور ان پر ہورہے استحصالی حملوں کو باریک بینی سے مطالعہ کرنے کے بعد قرطاس ابیض پر نہایت ہی سلیقے سے اتار دینے کے فن میں واقف ہیں ۔ان کی افسانہ نگاری پر محمد منصور الحق نے بھی ا پنے خیالات کا اظہارکچھ اس طرح کیا ہیں:
’’کبھی ان کا فن بالیدہ ہوکر اظہار کے بلند گوشوں تک پہنچ جاتا تو کبھی
معصومیت کی اس نہض کی جانب مڑ جاتا ہے جہاں سے وہ اپنی کہانی کے
سفر کا آغاز کرتے ہیں ۔وہ لسانی اظہار سے کم فکری بنیادوں سے زیادہ
مضمحل اور منتشر نظر آتے ہیں ۔لہذا ان کی زبان و بیان کا معیار ان کے افسانوں
میں ہر لمحہ روشن نظر آتا ہے مگر فکری دھاروں میں عجیب سا الٹ پھیر دکھائی
دیتا ہے ۔بدکی کا فن الجھن اور اس کے سلجھنے کے درمیان کی داستان ہے، اس لئے
اردو کے ان افسانہ نگاروں کی صف میں رکھنا چائیے جن کے تئیں کا مسئلہ بڑی
مشکل سے طئے ہو پاتا ہے‘‘۔ ؎۳
دیپک بدکی گونا گوں شخصیت کے مالک ہیں ۔افسانہ نگاری کے علاوہ بدکی ادبی تخلیقات کی پرکھ کا شعور بھی رکھتے ہیں۔ ان کے اندر تخلیقی صلاحیت بھی موجود ہے ۔اس لیے ہم عصر ادیبوں، شاعروں اور افسانہ نگاروں کی تخلیقات پر اپنے تاثرات بھی قلمبند کرتے رہے ۔ تحقیق و تنقید اور تبصرہ میں اب تک ان کی دو کتابیں منظر عام پر آچکی ہے ۔’عصری تحریریں‘‘ ، عصری شعور ‘ ان دو کتابوں کی بدولت انہوں نے تنقیدی شعبے میں بھی اپنی شناخت قائم کی ۔’عصری تحریریں ‘اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے ۔اس کتاب کو ساتھ ابواب پر منقسم کیا گیا ہے ۔کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر فرید ؔ پربتی نے لکھا ہے۔ ان مضامین کے مطالعہ سے بُدکی کی تنقیدی بصیرت کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر سیفی سرونجی لکھتے ہیں:
’’سچائی تو یہ ہے کہ دیپک بُدکی نے ان تمام مضامین کو اپنی تنقیدی
صلاحیتوں اور گہرے مطالعہ کی بنا پر اتنا اہم اور پراثر بنا دیا ہے کہ قاری
نے اگر کتاب نہیں بھی پڑھی ہے تو دیپک بدکی کے مضامین پڑھ کر نہ صرف
اس سے ساری معلومات ہوجاتی ہیں بلکہ کتاب پڑھنے کی جستجو پیدا ہوجاتی
ہے۔۔۔اردو میں ایک اچھے افسانہ نگار دیپک بدکی سے تو ہم آشنا تھے ہی ایک
اچھے نقاد کا بھی استقبال ہے۔‘‘ ؎۴
مجموعی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہے کہ دیپک بدکی کی کہانیاں ہندوستان ،پاکستان اور یورپ کے اردو اخباروں اور رسالوں میں آج بھی شائع ہوتی رہتی ہیں ۔اردو ادب کی خدمت کے لیے یہ شخص تن و من سے مصروف ہے ۔ماہنامہ شاعر ممبئی،ٔ سہ ماہی انتساب سرونج ،سہ ماہی تحریک ادب اور سہ ماہی اسباق پونے نے ان کی شخصیت اور فن پر خصوصی گوشے شائع کیے۔ نامور ادیبوں و ناقدوں نے ان کے فن کو وقتاً فوقتاً سراہا ہے ۔ان کی شخصیت اور فن پر بے شمار مضامین شائع ہوچکے ہیں اور آج بھی ہو رہے ہیں ۔
******
حواشی
۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ انتساب رسالہ مدیر ڈاکٹر سیفی سرونجی ۴۹
۲۔ ورق ورق آئینہ۔دیپک بدکی شخصیت اور فن مرتبہ ،ڈاکٹر فریدؔ پربتی ،شہاب عنایت ملک، انور ظہیر انصاری . میزان پبلشرز و پرنٹرس سرینگر ۹۲
۳۔ رسالہ تحریک ادب مدیر جاوید انور خصوصی شمارہ نومبر ۲۰۱۷ء ۲۰۱
۴۔ ورق ورق آئینہ۔دیپک بدکی شخصیت اور فن مرتبہ ،ڈاکٹر فریدؔ پربتی ،شہاب عنایت ملک، انور ظہیر انصاری . میزان پبلشرز و پرنٹرس سرینگر ۲۰۸
No comments:
Post a Comment